Maktaba Wahhabi

56 - 277
کی عظمت کا شاہکار سمجھا جاتا؛ اس طرح یہاں پر کل سات قصیدے جمع ہوگئے۔‘‘ [البدایہ والنہایہ۱؍۲۱۸] علامہ قنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جان لیجیے کہ شعر عرب کا دیوان شمار ہوتے تھے۔انہی میں ان کے علوم ؛ اخبار[تاریخ ] اور حکمتیں پوشیدہ ہوتی تھیں۔ رؤوسائے عرب اس میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ اوروہ اپنی شاعری سنانے کے لیے عکاظ نامی بازار میں کھڑے ہوتے۔ اور ان میں سے ہر ایک اپنی تمہید اپنی عظمت شان کے مطابق پیش کرتا۔ اور اپنا کلام اہل علم و بصر اور گردو نواح کے لوگوں کے سامنے رکھتا۔ ان کی یہ مسابقت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کلام کو بیت اللہ کے ساتھ لٹکایا جانے لگا۔ جو ان کے حج کرنے کی جگہ تھی۔اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعمیر کردہ خانہ کعبہ تھا۔ جیسا کہ امرؤالقیس بن حجر ؛ نابغہ الذبعانی ؛ زہیر بن ابی سلمی اور دوسرے اصحاب معلقات سبعہ نے کیا تھا۔‘‘ [ابجد العلوم ؛ الباب السادس ] عربی زبان نے خوب ترقی پائی اور ایک ایک معنی میں کئی کئی کلمات بولے جانے لگے ۔ حتی کہ ایک معنی میں دس دس کلمات ہوتے؛ اور ان کی دلالت استعمال کے حساب سے مختلف ہوتی ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس بھی تھا۔ کبھی کبھی ایک کلمہ کے کئی کئی معانی لیے جاتے۔ اور سیاق کے اعتبار سے مراد پر استدلال کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کے نزول سے قبل اس کی تیاری کا ایک پورا مرحلہ گزرا ہے۔ اور نزول قرآن کے وقت یہ زبان اپنے اوج کمال پر تھی۔ اہل زبان قرآن کے مصدر کی معرفت حاصل کرنے کے لیے تیار اور اس کے اہل تھے۔ وہ جان سکتے تھے کہ یہ کسی بشر کا کلام ہے؛ جو ان کے اسلوب میں او ران کی سوچ و فکر کے مطابق ہے؛ جو کہ ان مسائل پر مشتمل ہے جس میں وہ لوگ غوروفکر کرتے ہیں یا یہ کلام اپنے اسلوب کی ندرت
Flag Counter