Maktaba Wahhabi

57 - 277
وجمال ؛بلاغت ِ کلمات کے کمال اورعبارت کی فصاحت میں اس کے خلاف ہے۔ علامہ ازہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جب قرآن کریم نازل ہوا تو اس کے مخاطب لوگ عرب تھے۔جوکہ اہل بیان و فصاحت والے تھے۔ ان کی فہم ودانست تجربہ کار تھی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کی زبان میں قرآن نازل کیا؛ یہ قرآن بھی اسی کلام کے صیغے تھے جس پر ان لوگوں کی پرورش ہوئی تھی ۔بول چال ان کی فطرت کا حصہ تھی۔ اور اسی پر ان کی تربیت ہوئی تھی۔وہ خطاب کے اسرار و رموز اور اتار چڑھاؤ سے واقف تھے۔ اس زبان کے نظام اور فنون کی سمجھ رکھتے تھے۔ انہیں مشکل اور نادر الفاظ کے سمجھنے کے لیے کسی تعلیم و تعلم کی مزید ضرورت نہ تھی ۔ان لوگوں کی طرح جو پیدا ہوتے ہیں اور تربیت پاتے ہیں مگر عربی زبان نہیں جانتے حتی کہ اسے سیکھ لیں۔ اور نہ ہی انہیں اس کی ضرب امثال؛ طرق و اسالیب کی سمجھ ہوتی ہے حتی کہ یہ سمجھ حاصل کرلی جائے۔‘‘ [تہذیب اللغۃ ] قرآن مجید ایسے اسلوب میں نازل ہوا جو کہ عرب عادات کے برعکس تھا۔ اس لیے کہ عربوں کے ہاں کلام یا تو شعر میں ہوتا ہے یا نثر میں۔اور ان میں سے ہر ایک قسم کے تحت اس کی کئی ذیلی اقسام ہوتی ہیں۔ لیکن قرآن کریم ایسے ہوشربا اسلوب میں آیا کہ اس نے محاسن کلام کی تمام اقسام کو جمع کردیا تھا۔ کلمات تو وہی عربی کلمات تھے۔ حروف بھی وہی حروف تھے۔ لیکن اس کا معجزہ سیاق کے لحاظ ان مفردات کا اختیار تھا جن سے تعبیری معانی مراد لیے جانے تھے۔اسے فن کی زبان میں نظم و تألیف کہا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگراس کے ایک کلمہ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیا جائے اور پھر کوشش کی جائے کہ اس کے متبادل کوئی دوسرا کلمہ یہاں پر رکھا جائے تو یہ دوسراکلمہ اپنے مقام و مرتبہ اور جمال کے لحاظ سے پہلے کلمہ کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے پہل جب اہل عرب نے قرآن سنا تو کہنے لگے کہ ہم بھی اس جیسا
Flag Counter