Maktaba Wahhabi

84 - 277
کے جاننے والے تھے۔ پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کی بابت خبر دی کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ خبریں وحی کی ہیں جو آپ کی نبوت کی دلیل اور صداقت کی نشانی ہیں۔تاکہ اس سے کفار اوران اہل کتاب کا عذر ختم ہوجائے جو یہ بات جانتے تھے کہ ان خبروں کے انتہائی خفیہ اور دقیق ہونے کے باوجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تک رسائی اور ان امور سے خود اہل کتاب کی بیگانگی کے حد تک لا علمی کے باوجود آپ کا ان کے معرفت میں صحیح ادراک صرف اورصرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آپ کو بتانے سے ممکن ہوا ہے۔یہ لوگ جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے لکھے نہیں کہ کوئی کتاب آپ نے پڑھ لی ہو؛ یا کسی کتاب کے ذریعہ اس علم تک آپ کی رسائی ممکن ہوگئی ہو۔ اور نہ ہی اہل کتاب کیساتھ آپ کی دوستی تھی کہ آپ نے یہ علم ان سے حاصل کر لیا ہو۔‘‘ [الطبری ۳؍۱۸۲] علامہ ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ یہ واقعات اہل عرب کے لحاظ سے بالکل غیبی امور تھے۔ کیونکہ انہیں چند چیزوں کے اجمالی علم کے علاوہ کوئی باریک اور تفصیلی علم نہیں تھا۔ وہ یہ کہ کسی قدیم زمانے میں ایک نبی گزرا ہے جس کا نام نوح علیہ السلام تھا۔ ان کی قوم کو طوفان نے غرق کردیا تھا۔اس کے علاوہ جتنی بھی خبریں تھیں وہ [ان کے لیے] غیب سے تعلق رکھتی تھیں۔ جیسا کہ قرآن کریم نے اس طرف اشارہ بھی کیا ہے؛ فرمایا: { مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَآ اَنْتَ وَ لَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا} [ہود۹] ’’اورنہ ہی اس سے پہلے آپ جانتے تھے اور نہ ہی آپ کی قوم۔‘‘ پس بیشک ان لوگوں نہ ہی اس بات کا انکار کیا اور نہ ہی ان امور کا علم ہونے کا دعوی کیا۔ ’’اس میں کچھ ایسے واقعات بھی ہیں جو تمام امتوں کے لحاظ سے غیبی امور ہیں؛ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کے چوتھے بیٹے اور اس کی اپنے والد کی نافرمانی اور پھر اس کے غرق ہونے کا قصہ ؛ اورکشتی سے اترتے وقت حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ رب
Flag Counter