Maktaba Wahhabi

117 - 202
«يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ، إِنَّ الْبَيْعَ يَحْضُرُهُ اللَّغْوُ وَالْحَلْفُ، فَشُوبُوهُ بِالصَّدَقَةِ»" ’’حضرت قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہمیں سماسرہ( بروکرز) کہا جاتا تھا۔چنانچہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گذرے تو آپ نے ہمارا اس سے اچھا نام رکھا۔آپ نے فرمایا:اےتاجروں کی جماعت بلاشبہ خریدوفروخت میں لغو گفتگو اور قسمیں بھی شامل ہوتی ہیں لہذا تم اس میں صدقہ ملا لیا کرو۔‘‘[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کاروباری افراد کے لیے بروکرز کی بجائے تاجر کا لفظ کیوں پسند فرمایا،علماء نے اس کی مختلف وجوہ بیان کی ہیں۔صحیح بات یہ ہے کہ بروکر اور تاجر میں فرق ہے۔وہ یہ کہ بروکر محض فروخت کنندہ اور خریدار کے درمیان واسطہ ہوتا ہے،نفع ونقصان کی ذمہ داری اس پر عائد نہیں ہوتی جبکہ کاروبار میں نقصان کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔اورآپ نے جن لوگوں کو بروکرز کی بجائے تُجار کہہ کر پکاراوہ صرف بائع اور مشتری کے درمیان واسطہ نہ تھے بلکہ کاروبار کرتے تھے اس لیے آپ نے انہیں یہ لقب عطا فرمایا۔ کمیشن ایجنٹ کے لیے یہ از حد ضروری ہے کہ وہ قابل اعتماد اورصادق وامین ہونے کے ساتھ ساتھ اس شعبہ میں مکمل مہارت بھی رکھتا ہو کیونکہ لوگ انہی اوصاف کو مدنظر رکھ کر اپنی گراں قدر جائیدادوں کی خریدوفروخت کے لیے ان کی خدمات حاصل کرتے ہیں لہذا خریدار کو حقیقت حال سے آگاہ کرنا اور چیز کو اس کی مارکیٹ قیمت پر بیچنا کمیشن ایجنٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔علاوہ ازیں حکومت وقت کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسا ضابطہ اخلاق وضع کرے جس کی پابندی ہر کمیشن ایجنٹ پر لازم ہو اور ملک کے تمام کمیشن ایجنٹس کا پورا پورا ریکارڈ حکومت کے پاس موجود ہوتاکہ جائیداد کی خریدوفروخت کے معاملات میں دھوکہ دہی کا سد باب کیا جاسکے اور فراڈ کی صورت میں
Flag Counter