Maktaba Wahhabi

89 - 202
طے شدہ مدت تک بیع منسوخ کرنے کا اختیار باقی رہتا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے۔ " كُلُّ بَيِّعَيْنِ لاَ بَيْعَ بَيْنَهُمَا حَتَّى يَتَفَرَّقَا، إِلَّا بَيْعَ الخِيَارِ " ’’خریدو فروخت کرنے والوں کے درمیان بیع (لازم) نہیں ہو گی یہاں تک وہ جدا ہوں جائیں سوائے اس بیع کے جس میں وہ ایک دوسرے کو اختیار دے دیں۔‘‘[1] خیار شرط جب فروخت کنندہ یا مشتری خریداری کا معاملہ کرتے وقت یہ کہے کہ مجھے اتنی مدت تک بیع فسخ کرنے کا اختیار ہوگااور دوسرا فریق بھی اس پر راضی ہو تو اس کو خیار شرط کہتے ہیں۔یہ جائز ہے اس کی دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: "الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ " ’’مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں۔‘‘[2] تاہم اس کو سود کا ذریعہ بنانا جائز نہیں، لہٰذا اگر قرض د ہندہ قرض پر اضافی رقم لینے کی بجائے قرض لینے والے کی کوئی جائیدادخریدلے اور یہ طے کر لے کہ مجھے اتنی مدت تک بیع فسخ کرنے کا اختیار ہو گا تاکہ دوران مدت اس جائیداد سے فائدہ اٹھا سکے اور جب مدت پوری ہو تو خیار شرط کے تحت بیع فسخ کردےتو یہ جائز نہیں ہو گا کیونکہ یہ سودی حیلہ ہے۔چنانچہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: ’’کہ ایک شخص دوسرے سے کوئی چیز مثلاً زمین خریدتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ آپ کو فلاں مدت تک بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے تو انہوں نے فرمایا جائز ہے بشرطیکہ حیلہ مقصود نہ ہو۔حیلہ سے مراد یہ ہے کہ وہ قرض لینے والے سے کوئی جائیداد خرید کر اس سے فائدہ
Flag Counter