Maktaba Wahhabi

88 - 202
بازی میں غوروفکر کے بغیر ہی ہوجاتی ہے، لہذا یہ شریعت کا ملہ کی خوبیوں میں سے ہے کہ اس نے ایک حد(جب تک دونوں فریق بیع کی جگہ موجود ہیں) مقرر کردی ہے جس میں دونوں فریق اپنے فیصلے پر غور وفکر اور نظر ثانی کرلیں۔‘‘[1] لیکن اگر مشتری جدا ہونے سےقبل خریدی گئی چیز میں تصرف کرلے مثلاً کسی کو ہبہ کردے اور فروخت کنندہ اس پر اعتراض نہ کرے تو خیار مجلس ختم اور بیع لازم ہوجاتی ہے۔[2] بعض اہل علم کے نزدیک اگر دونوں یا ایک بیع کرتے وقت یہ واضح کردے کہ بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہو گا تو پھربھی دونوں یا جس نے یہ حق ختم کیا اس کا اختیارساقط ہو جائےگا اور بیع لازم ہوجائے گی۔دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ "إِذَا تَبَايَعَ الرَّجُلَانِ فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا،وَكَانَا جَمِيعًا أَوْ يُخَيِّرُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ" ’’جب دو شخص بیع کریں تو ہر ایک کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں یعنی اکھٹےہوں یا ایک دوسرے کو اختیار نہ دے دیں۔‘‘[3] یہ حضرت ایک دوسرے کو اختیاردینے کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ جب فریقین یا ان سے ایک لین دین کرتے وقت یہ شرط لگالے کہ خیار مجلس نہیں ہوگا تو یہ اختیار ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ یہ خیار کی حکمت و فلسفہ کے خلاف ہے۔ہماری ناقص رائے میں اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ جب تک فریقین بیع کی جگہ پر موجود ہوں ان کے درمیان بیع لازم نہیں ہوتی سوائے اس بیع کے جس میں وہ ایک دوسرے کو جدا ہونے کے بعد بھی طے شدہ مدت تک بیع فسخ قرار دینے کا اختیار دے دیں، یعنی اس صورت میں جدائی سے قبل ہی بیع لازم ہو جاتی ہے البتہ
Flag Counter