Maktaba Wahhabi

118 - 202
ایجنٹ کو بھی قانون کی گرفت میں لایا جاسکے۔ کمیشن پر خریدوفروخت کی شرعی حیثیت سرخیل محدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری شریف میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ کمیشن لے کر خریدوفروخت کرانی جائز ہے۔انہوں نے اس سلسلے میں جو دلائل پیش کیے ہیں وہ یہ ہیں۔ 1۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: "نَهَى رَسولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّمَ أنْ يُتَلَقَّى الرُّكْبَانُ، ولَا يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، قُلتُ: يا ابْنَ عَبَّاسٍ: ما قَوْلُهُ لا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ؟ قَالَ: لا يَكونُ له سِمْسَارًا. " ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منڈی سے باہر جاکر تجارتی قافلوں کو ملنے سے اور اس بات سے منع کیا کہ کوئی شہری کسی صحراء نشین(کے سامان) کی بیع کرائے۔حضرت طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے عبداللہ بن عباس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے کہا اس کا معنی ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔‘‘[1] امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمیشن پر لین دین کی صرف ایک خاص صورت سے منع کیا ہے۔وہ مخصوص صورت یہ ہے کہ شہری صحراء نشین کو کمیشن پر خریدوفروخت کرائے یعنی جب آبادی سے دور جنگلات میں رہنے والے خریداری یا اپنا مال فروخت کرنے کے لیے شہر میں آئیں تو انہیں براہ راست خریدوفروخت کرنے دی جائے کیونکہ یہ لوگ عموماً انتہائی ضرورت کے وقت اور محدود پیمانے پر ہی خریدوفروخت کرتے ہیں۔ظاہر ہے اس قسم کے لوگوں سے کمیشن کی وصولی قرین انصاف نہیں ہے۔اس حدیث مبارک سے یہ عیاں ہے کہ شہروں کے رہائشی ایک دوسرے کے ساتھ کمیشن کا لین دین کرسکتے ہیں۔اسی لیے فقیہ امت امام بخاری رحمہ اللہ
Flag Counter