مارکیٹ ریٹ خراب نہ کریں
بلاشبہ انسان اپنی چیز جس قیمت پر چاہے فروخت کرسکتا ہے شریعت کواس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن جس طرح استحصال اور ظالمانہ منافع خوری ممنوع ہے اسی طرح نامناسب حد تک قیمتیں کم کرکے مارکیٹ کا توازن خراب کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے، چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی چہرہ آفاق تالیف موطا میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے:
" أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، مَرَّ بِحَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ. وَهُوَ يَبِيعُ زَبِيباً لَهُ، بِالسُّوقِ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِمَّا أَنْ تَزِيدَ فِي السِّعْرِ، وَإِمَّا أَنْ تَرْفَعَ مِنْ سُوقِنَا. "
’’عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے اور وہ بازار میں اپنا منقی بیچ رہے تھے،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کہا یا تو قیمت میں اضافہ کرو یا ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔‘‘[1]
مارکیٹ ریٹ سے بہت کم قیمت رکھنا بھی دراصل اجارہ داری قائم کرنے اور دوسرے تاجروں کا راستہ روکنے کا ایک حربہ ہے بالخصوص چھوٹے تاجر اس سے بہت زیادہ متأثر ہوتے ہیں اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاطب بن ابی بلتعہ کو انتہائی کم نرخ پر بیچنے سے منع فرمادیا۔
جوحضرات قیمتوں میں عدم مداخلت کے قائل ہیں وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے موقف سے رجوع کرلیاتھا جیسا کہ سنن بیہقی میں ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بازار سے واپس آئے تو اپنا محاسبہ کرلیا اور حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا یہ میرا فیصلہ نہیں میرا مقصد تو شہر والوں کی بھلائی تھا ورنہ آپ جہاں چاہیں اور جیسے چاہیں بیچیں۔[2]
|