Maktaba Wahhabi

125 - 202
اس سے معلوم ہوا کہ کمیشن کے دونوں طریقے صحیح ہیں۔بعض حضرات کے نزدیک کمیشن کو قیمت فروخت کے ساتھ مربوط کرنا یعنی یہ کہنا کہ میں اس چیز کی قیمت فروخت کا ایک فیصد یا دو فیصد کمیشن لوں گا جیسا کہ آج کل رواج ہے۔درست نہیں، ایک تو اس لیے کہ اس صورت میں کمیشن کی رقم متعین نہیں ہوتی بلکہ مبہم رہتی ہے جبکہ شرعاً کمیشن کی رقم متعین ہونی چاہیے۔ اور دوسرا اس وجہ سے کہ کمیشن دراصل ایجنٹ کی محنت کا معاوضۃ ہے۔اب چیز دس لاکھ میں فروخت ہو یا گیارہ لاکھ میں، دونوں صورتوں میں محنت مساوی ہے قیمت کی کمی و بیشی سے کم و زائد نہیں ہوئی، لہٰذا قیمت فروخت کی بنیاد پر کمیشن لینا جائز نہیں لیکن درج ذیل وجوہ کے باعث یہ رائے صائب نہیں ہے۔ 1۔کام کرنے والے کی محنت کا معاوضہ پیداوار کی فیصد کے مطابق مقرر کرنا سنت نبوی سے ثابت ہے۔چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو خیبر کے باغات اور زمینیں اس شرط پر دی تھیں۔کہ وہ ان میں محنت کریں گے اور اس کے دلے ان کو پیدا وار کا نصف ملے گا جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما منقول ہے: "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ" ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے اناج اور پھلوں کی نصف پیداوار پر معاملہ کیا تھا۔‘‘[1] اہل خیبر کو اناج اور پھلوں کی پیداوار کی مقدار کا قطعی علم نہ تھا کیونکہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے البتہ انہیں اس مقدار سے اپنے حصے کا علم ضرور تھا۔کمیشن ایجنٹ کو فیصد کے اعتبار سے معاوضہ دینا اس سے ملتا جلتا مسئلہ ہے اس لیے یہ حدیث اس امر کی مضبوط دلیل ہے کہ قیمت کو معیار بنا کر معاوضہ طے کیا جا تا ہے۔ 2۔بیع ہمیشہ معلوم قیمت کے بدلے ہوتی ہے جس کی بنا پر کمیشن بھی معلوم ہوتی ہے اور اس میں
Flag Counter