بایں ہمہ مروجہ اسلامی بینکوں کے وکیل اور ترجمان اس بات پر مصر ہیں کہ ہم نے روائتی لیز میں پائی جانے والی خرابیاں دور کردی ہیں اور ہماری اجارہ مصنوعات اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں جو علماء نکتہ چینی کررہے ہیں وہ اصل میں بینکنگ سے ناواقف ہیں۔بینک کا طریق کار کیا ہو تا ہے یہ ناقدین اس معاملے میں بالکل بے علم ہیں لہٰذا ان کی تنقید معتبر نہیں۔حالانکہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ مروجہ اسلامی بینکاری کے بارے میں جتنی زیادہ آگاہی حاصل کی جائے اتنی ہی زیادہ اس کی قباحتیں آشکارا ہوتی چلی جاتیں ہیں۔اس لیے کہ اسلامی بینک شرعی اصطلاحات مضاربہ،مرابحہ، اجارہ اور مشارکہ وغیرہ استعمال کرتے ہیں جس سے ان کے معاملات سر سری نظر میں جائز معلوم ہوتے ہیں لیکن جب تعمق نگاہی سے جائزہ لیا جاتا ہے تو ان کے نقائص کھل کر سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔اس لیے یہ کہنے کی بجائے یوں کہنا چاہیے جو حضرات مروجہ اسلامی بینکوں کے حامی ہیں ان کی اسلامی بینکوں کے معاملات پر گہری نظر نہیں ہے اس لیے یہ ان کی حمایت کر رہے ہیں۔اگر انہوں نے اسلامی بینکوں کےمعاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہوتا تو انہیں کبھی جائز قرار نہ دیتے۔
|