Maktaba Wahhabi

174 - 202
ہوتا تھا اور سونے، چاندی کی زری صلاحیت بھی مسلمہ ہے لیکن شریعت نے زر کے لیے سونے، چاندی کے سکوں کی شرط نہیں لگائی بلکہ اس معاملے میں بڑی وسعت رکھی ہے۔مشہور مؤرخ احمد بن یحی بلاذری کے بقول حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور میں اونٹوں کی کھال سے درہم بنانے کا ارادہ کرلیا تھا مگر اس خدشے سے ارادہ ترک کردیا کہ اس طرح تو اونٹ ہی ختم ہوجائیں گے۔چنانچہ بلاذری نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔ "همَمْتُ أن أجعل الدراهم من جلود الإبل، فقيل له: إذاً، لا بعير، فأمسك" ’’میں نے اونٹوں کے چمڑوں سے درہم بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ان سے کہاگیا تب تو اونٹ ختم ہوجائیں گے اس پر انہوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔‘‘[1] امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ " لو أن الناس أجازوا بينهم الجلود حتى تكون لها سكة وعين لكرهتها أن تباع بالذهب والورق نظرة" ’’ اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خریدوفروخت کو رائج کردیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائے تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو ادھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا۔‘‘[2] یعنی اگرچمڑا بحیثیت زررائج ہوجائے تو اس پر بھی وہی احکام جاری ہوں گے جودرہم ودینار پر ہوتے ہیں۔ علامہ ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ خراسان کے امیر غطریف بن عطاء کندی کی طرف منسوب غطارفۃ نامی دراہم جن میں ملاوٹ زیادہ اور چاندی کم ہوتی تھی کہ بحث میں رقمطراز ہیں۔ "وذكر الولوالجي أن الزكاة تجب في الغطارفة إذا كانت مائتين‘
Flag Counter