Maktaba Wahhabi

42 - 202
خریدی تھی اور آج مارکیٹ میں اس کی قیمت کیا ہے۔فرض کیجئے آخری مشتری نے چار ہزار پچاس روپے میں خریدی تھی اور قبضہ کے دن اس کی قیمت چار ہزار ایک سو روپے ہو گئی تو اس کے کھاتے میں پچاس روپے کا اندراج کردیا جائے گا اور قبضہ کے دن قیمت کم ہو کر چار ہزار روپے رہ گئی تو اس کے کھاتے سے پچاس روپے منہاکر لیے جائیں گے۔ چونکہ یہاں نہ تو خریدی ہوئی چیز پر قبضہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کا لین دین مقصود ہوتا ہے بلکہ نفع و نقصان کا فرق برا بر کیا جا تا ہے جوکہ سٹہ ہے اس لیےیہ کاروبار حرام اور ناجائز ہے حتی کہ اگر قبضہ مقصود ہو تب بھی فیوچر معاملہ جائز نہیں کیونکہ فیوچر معاملات میں چیز کی سپردگی اور قیمت کی ادائیگی دونوں ادھار ہوتی ہیں جو شرعی اعتبار سے غلط ہے۔شریعت نے بیع سلم کی اسی صورت میں اجازت دی ہے۔جب مکمل قیمت پیشگی ادا کر دی جائے، بصورت دیگر یہ ادھار کی ادھار کے ساتھ بیع ہو گی جو کہ ممنوع ہے۔یہی وجہ ہے کہ فقہائے اسلام بیع سلم کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بیان کرتے ہیں کہ معاملہ کرتے وقت مطلوبہ چیز کی مکمل قیمت ادا کرنا ضروری ہے۔چنانچہ الموسوعہ الفقہیہ میں ہے: "ذهب جمهور الفقهاء من (الحنفية والشافعية والحنابلة) الي أن من شروط صحة المسلم تسليم رأس ماله في مجلس العقد فلو تفرقا قبله بطل العقد" ’’جمہور فقہاء کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ سلم کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی قیمت مجلس عقد میں ادا کی جائے۔اگر دونوں فریق ادائیگی سے قبل الگ الگ ہو گے تو عقد باطل ہو گا۔‘‘[1] یہ بات صحیح ہے کہ مالکی فقہاء کے نزدیک دو تین دن کی تاخیر ہو سکتی ہے کیونکہ یہ معمولی تاخیر ہے جو قابل برداشت ہے اور بعض اوقات تو اتنا وقت قبضہ لینے کی کاروائی میں بھی لگ جاتا ہے۔
Flag Counter