Maktaba Wahhabi

50 - 202
" إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ،وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ،وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ،وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ،سَلَّطَ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ" ’’جب تم بیع عینہ کرنے لگ جاؤ گے اور بیلوں کی دُمیں پکڑ لوگے (زراعت میں مشغول ہو جاؤ گے)اور کھیتی باڑپر اراضی ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑدوگے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کردے گا۔حتی کہ تم اپنے دین کی طرف لوٹ آؤ۔‘‘[1] بعض فقہاء کے نزدیک اپنے ذمے دین(Debt) کی ادائیگی کے لیے حصول قرض کے خواہاں شخص کو کوئی چیز ادھار زائد قیمت پر بیچنا تاکہ وہ اس کو بازار میں نقد کم قیمت پر فروخت کرکے اپنا دین ادا کر سکے یہ صورت بھی بیع عینہ میں شامل ہے۔چنانچہ فقہ حنفی کی معروف کتاب الدر المختار میں بیع العینہ کی تشریح میں مرقوم ہے: " بيع العين بالربح نسيئة ليبيعها المستقرض بأقل ليقضي دينه، اخترعه أكلة الربا، وهو مكروه مذموم شرعا لما فيه من الإعراض عن مبرة الإقراض " ’’کسی چیز کو ادھار زائد قیمت پر بیچنا تاکہ قرض کا طالب کم قیمت پر بیچ کر اپنے ذمے دین ادا کر سکے اسے سود خوروں نے ایجاد کیا ہے اور یہ شرعا مکروہ اور مذموم ہے کیونکہ اس میں قرض کی نیکی سے اعراض پایا جا تا ہے۔’‘[2] اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: "فيأتي إلى تاجر فيطلب منه. القرض ويطلب التاجر منه الربح ويخاف من الربا فيبيعه التاجر ثوبا يساوي عشرة مثلا بخمسة عشر نسيئة فيبيعه هو في السوق بعشرة فيحصل له العشرة ويجب عليه للبائع
Flag Counter