سے زائد منافع وصول کر لے یا اگر خریدار ہے تو قرض لینے والے کو کم منافع دے اور یوں معاملہ میں سود کی آمیزش ہو جائے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ممنوع قرار دیا ہے:
" أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ سَلَفٍ وَبَيْعٍ "
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض اور بیع سے منع فرمایا ہے۔‘‘[1]
محدث جلیل امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
"أن النبي -صلى اللّٰه عليه وسلم- نَهَى أن يَجْمَع الرجل بين سَلَفِ وبيع ومعلوم أنه لو أفرد أحدهما عن الآخر صح وإنما ذاك لأن اقتران أحدهما بالآخر ذريعة إلي أن يقرضهأالفا ويبيعه سلعة تساوي ثمانية بألف أخري فيكون قد أعطاه ألفا وسلعة بثمانمائة ليأخذ منه ألفين وهذا هو معني الربا فانظر إلي حمايته الذريعة إلي ذلك بكل طريق"
’’بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا کہ کوئی شخص قرض اور بیع کا معاملہ جمع کرے۔اور یہ بات معلوم ہے کہ اگر ان میں سے ہر ایک کو دوسرے سے الگ کر کے انجام دیا جاتا تو وہ صحیح ہوتا۔لیکن دونوں کو جمع کرنے کی ممانعت اس لیے فرمائی کہ ایک معاملے کودوسرے کے ساتھ ملانا سودی لین دین کا ذریعہ بن سکتا ہے وہ اس طرح کہ وہ مشتری کو ایک ہزار قرض دے اور آٹھ سو کا سامان الگ سے ایک ہزار کے عوض فروخت کردے تو اس طرح اس نے مشتری کو ایک ہزار(قرض)دیا اورآٹھ سو کی مالیت کا سامان(ایک ہزار میں) فروخت کردیا تاکہ اس سے دو ہزار وصول پائے اور سود کا معنی بھی یہی ہے۔دیکھو!نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سودی ذرائع سے ہر طریقے سے بچایا ہے۔‘‘[2]
|