ابن بطال کہتے ہیں فتنہ کے زمانے میں اسلحے کی فروخت اس لیے ممنوع ہے کہ یہ گناہ پر تعاون کی ایک شکل ہے اسی لیے امام مالک، شافعی، احمد، اور اسحاق نے شراب ساز کو انگور بیچنے مکروہ سمجھتے ہیں۔‘‘[1]
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس بارے میں شریعت کے دلائل اور قواعد واضح ہیں کہ معاملات میں مقاصد کا اعتبار ہوتا ہے اور یہ کسی معاملے کے صحیح وفاسد اور حلال وحرام ہونے میں موثر ہوتے ہیں۔‘‘[2]
آگے چل کر لکھتے ہیں:
"كذلك السلاح يبيعه الرجل لمن يعرف انه يقتل به مسلما حرام باطل لمافيه من الإعانة علي الإثم والعدوان"
’’اسی طرح اس شخص کو اسلحہ فروخت کرنا بھی باطل اور حرام ہے جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کو قتل کرے گا کیونکہ یہ ظلم وزیادتی میں تعاون ہے۔‘‘
اس سے صاف واضح ہے کہ ڈاکوؤں اور معاشرے میں بُری شہرت رکھنے والے عناصر کو اسلحہ فروخت کرنا حرام ہے کیونکہ یہ معصیت اور نافرمانی میں تعاون ہے۔حرام کاروبار کے لیے جگہ فروخت کرنے کا بھی یہی حکم ہے بشرط کہ معاہدہ بیع کے وقت فروخت کنندہ کے علم میں ہوکہ خریدار اس کو حرام مقاصد کے لیے استعمال کرے گا لیکن اگر معاہدے کے وقت اس کی نیت معلوم نہ ہو اور بعد ازاں وہ اس کا غلط استعمال شروع کردے تو اس صورت میں فروخت کنندہ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطررکھیں کہ شرعاً فروخت کنندہ پر مشتری سے خریداری کا
|