Maktaba Wahhabi

46 - 108
شریک تھا۔ ایک غزوہ تبوک اور دوسرا غزوہ بدر۔ میرے غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے کا واقعہ اس طرح ہے کہ میں اتنا زیادہ قوی اور اتنا زیادہ خوشحال کبھی نہ ہوا تھا جتنا غزوہ تبوک کے وقت تھا۔ اللہ کی قسم! میرے پاس کبھی دو اکٹھی سواریاں نہیں ہوئیں۔ جب کہ اس وقت میرے پاس دو سواریاں تھی- رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تو آپ اس کے غیر کے ساتھ توریہ فرماتے تاکہ دشمن سے اصل حقیقت مخفی رہے۔ حتی کہ عزوہ تبوک ہوا۔ سخت گرمی کا موسم تھا۔ سفر دور کا اور جنگل بیابانوں کا تھا۔ مد مقابل دشمن بھی بڑی تعداد میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توریے کے بغیر مسلمانوں کے سامنے واضح بیان فرما دیا تھا کہ سفر کی بھرپور تیاری کر لیں۔ مسلمان بڑی تعداد میں تھے۔ ان کا اندراج بھی کسی رجسٹر میں نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے اگر کوئی شخص جنگ سے غیر حاضر رہتا تو میں خیال کرتا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخفی رہے گا۔ یہ غزوہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا جب پھل پک چکے تھے۔ پس رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ؓ نے تیاری کی۔ اور میرا خیال اپنی فصل کی طرف تھا۔ میرا حال یہ تھا کہ صبح کے وقت نکلتا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیاری کروں اور اسی طرح واپس لوٹ جاتا۔ اپنے دل میں کہتا کہ میرے پاس وسائل ہیں جب چاہوں گا چلا جاؤں گا۔ پھر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایک صبح سفر کو روانہ ہو گئے۔ میں اپنی تیاری کے سلسلے میں کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ میری یہی کیفیت رہی حتی کہ مجاہدین تیزی سے چلے گئے اور جہاد کا معاملہ بھی آگے بڑھ گیا۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں بھی سفر پر روانہ ہو جاؤں اور ان کو ملوں۔ اے کاش! میں ایسا کر لیتا لیکن یہ میرے مقدر میں نہ ہوا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد‘ جب میں لوگوں میں نکلتا تو یہ بات میرے لیے حزن و ملال کا باعث بنتی کہ میرے ساتھ اب کوئی نمونہ ہے تو فقط ایسے شخص کا جو نفاق سے مطعون ہے۔ یا ایسے کمزور لوگوں کا جن کو اللہ نے معذور قرار دیا۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک پہنچ گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔ کعب بن مالک نے کیا کیا؟ ایک آدمی نے کہا کہ اس کو اس کی دو چادروں اور دونوں پہلوؤں نے دیکھنے سے روک دیا (یعنی مال و دولت اور
Flag Counter