Maktaba Wahhabi

49 - 227
رکھ دیں گے، تو اس کی نیکیاں اس کی برائیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوجائیں گی۔ پس وہ ان کی رحمت سے جنت میں داخل ہوجائے گا۔ ‘‘ اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے، کہ معقول اغراض کے لیے قرض لینا قابل مواخذہ نہیں، البتہ غیر معقول مقاصد کے لیے قرض لینے پر روزِ قیامت باز پرس ہوگی۔ ایک اور حدیث میں یہ بات بیان کی گئی ہے، کہ ناپسندیدہ غرض کے لیے قرض لینے والا اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم ہوجاتا ہے۔ امام حاکم نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الدَّائِنِ حَتَّی یُقْضَی دَیْنُہُ، مَا لَمْ یَکُنْ فِیْمَا یَکْرَھُہُ اللّٰہُ۔ ‘‘[1] [’’ اگر قرض اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ مقصد کی خاطر نہ ہو، تو ادائیگی قرض تک اللہ تعالیٰ مقروض کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ‘‘] قابل افسوس بات یہ ہے، کہ بعض مسلمان خواتین وحضرات شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے مواقع پر اسراف و تبذیر [2] کے لیے قرض لیتے ہیں۔ اس طرح قرض لینے کی قباحت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں۔ آمین۔ (۲)ادائیگی کی سچی نیت: قرض لینے کے جواز کی دوسری شرط یہ ہے، کہ قرض لینے والے کی واپسی
Flag Counter