Maktaba Wahhabi

176 - 444
قرآن اتارا اس لیے کہ تو لوگوں کو سمجھا دے (کھول کر بتلا دے) جو ان کی طرف اترا اور اس لیے کہ (وہ خود بھی) غور کریں۔‘‘ (النحل:۴۳، ۴۴ آیات کا متن آگے آرہا ہے) اس آیت میں ’’الذکر‘‘ یعنی قرآن کے نازل کرنے کا مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول و عمل سے اس کی توضیح و تشریح فرمائیں۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توضیحات کو سامنے رکھے بغیر قرآن کے مجملات کو سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ مثلا نماز، زکوٰۃاور دیگر احکام۔ اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((اَ لَا اِنِّیْ اُوْتِیْتُ الْقُرآنَ وَمِثْلَہ مَعَہ)) ’’کہ خبردار! مجھے قرآن اور اس جیسی ایک اور چیز یعنی سنت دی گئی ہے۔‘‘ پس قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے سنت سے بے نیازی اس آیت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ (از وحیدی) اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث سلفی العقیدہ جماعت حقہ کے لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ :قرآنِ حکیم اپنے حروف و کلمات اور معانی سمیت اللہ عزوجل کا کلام ہے۔ قرآن عزیز کا آغاز اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہوا تھا اور یہ اُسی کی طرف (قیامت سے پہلے) واپس پلٹ جائے گا۔ قرآن مجید اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ غیر مخلوق، اُس کی صفتِ عالیہ و مقدسہ ہے۔ اللہ ذوالعرش الکریم نے اس قرآنِ عظیم کے ساتھ برحق کلام فرمایا اور اسے سیّد الملائکہ جناب جبریل علیہا الصلٰوۃ والسلام کی طرف وحی کیا تھا اور جناب جبریل علیہا الصلٰوۃ والسلام اسے نبی آخر الزمان ختم الرسل سیّد الجِنّۃ والبشر محمد رسول اللّٰہ بن عبداللہ بن عبدالمطلب القرشی الہاشمی فداہ أبی واُمّی و جمیع الناس صلی اللّٰہ علیہ وسلّم تسلیماً کثیراً کی طرف لے کر اُترتے رہے۔ (اور اس کی وحی کو حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کر کے تئیس سالوں میں پورا کیا۔)
Flag Counter