جس طرح اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹوں کے بدلے سونا چاندی خریدنا جائز نہیں اسی طرح نوٹوں کے ساتھ مشارکہ یا بیع سلم درست نہیں کیونکہ اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹ دین(Debt)کی رسید ہے جبکہ شرعی سے شراکت اور سلم میں سرمایہ نقد ہونا ضروری ہے۔علاوہ ازیں یہ رائے اختیار کر کے ایک ملک کی کرنسی کا دوسرے ملک کی کرنسی سے تبادلہ بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ سونے کے بدلے سونے کی ادھاراور کمی بیشی کا ساتھ بیع ہوگی جو شرعاً درست نہیں۔
مگر یہ موقف درست نہیں کیونکہ اب نوٹ قرض کی رسید نہیں رہا جیسا کہ قبل ازیں بیان ہوا ہے بلکہ اب یہ خود قانونی زربن چکا ہے اور ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں کہ حکومت کوئی بھی چیز بطور زر اختیار کر سکتی ہے۔اب نوٹ پر لکھی اس عبارت
’’حامل ہذکو مطالبہ پر ادا کرے گا‘‘
کا مطلب صرف یہ ہےکہ حکومت اس کی ظاہری قیمت کی ذمہ دارہے۔جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’نوٹ رسید نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ گم یا تلف ہو جائے تو اس کا مالک جاری کنندہ سے مطالبہ نہیں کر سکتا خواہ اس کے پاس ہزار گواہ ہو اور اگر یہ حقیقی رسید ہوتا تو اس کو ضرور یہ اختیار ہوتا کیونکہ قرض مقروض کے ذمے ہوتا ہے رسید تلف ہونے سے ضائع نہیں ہوتا۔‘‘[1]
2۔بعض نامور علماء کے نزدیک نوٹ سامان یعنی جنس (Commodity) کے حکم میں ہیں مشہور مالکی فقیہ علیش مصری کی بھی یہی رائے ہے۔علامہ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
"وممن أفتى بأنها كعروض التجارة العالم المشهور عليش المصرى صاحب النوازل،وشرح مختصر خليل،وتبعه فى فتواه بذلك كثير من متأخرى علماء المالكية"
|