Maktaba Wahhabi

190 - 202
’’جن حضرات نے ان کے سامان تجارت ہونے کا فتوی دیا ہے ان میں’’نوازل‘‘اور’’شرح مختصر خلیل‘‘کے مصنف مشہور عالم علیش مصری بھی شامل ہیں۔بعد کےاکثر مالکی علماء نے بھی ان کے فتوی کی پیروی کی ہے۔‘‘[1] اس کی دلیل یہ دی جاتی ہےکہ نوٹ قیمت بننے کی صلاحیت سے عادی ہے کیونکہ یہ نہ سونا ہے اور نہ چاندی یہ تو سامان کی مانند ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق ایک نوٹ کا دونوٹوں کے ساتھ تبادلہ درست ہے۔اسی طرح اس نظریہ کے مطابق نوٹوں میں زکوۃ اسی صورت واجب ہوگی جب ان کو فروخت کر کے نفع کمانا مقصود ہو۔ یعنی نوٹ بذات کودثمن کی بجائے سامان تجارت قرار پا سکتا ہے۔اس نظریہ کی بنیاد پر کرنسی نوٹوں سے مضاربہ بھی ناجائز ٹھہرتا ہے کیونکہ مضاربہ میں سرمایہ نقد کی شکل میں ہونا ضروری ہے جبکہ اس نظریہ کے مطابق کاغذی نوٹ نقدی میں شامل نہیں بلکہ جنس(Commodity)ہے۔مگر درج ذیل وجوہ کے باعث یہ نقطہ نظر بھی صحیح نہیں ہے۔ ٭ شرعی لحاظ سے نقدی اور سامان میں فرق ہے۔نقدی محض ذریعہ مبادلہ ہے اسے کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے براہ راست استعمال نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس سے صرف اشیاء ضروریات ہی خریدی جا سکتی ہیں اس کے برعکس جنس کو براہ راست بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ٭ سامان میں مختلف اوصاف ملحوظ رکھے جاتے ہیں جبکہ کرنسی میں اوصاف کا خیال نہیں رکھا جاتا ایک سو کےپرانے نوٹ کی بھی وہی مالیت ہوتی ہے، جو ایک سو کے نئےنوٹ کی ہوتی ہے۔ ٭ سودی نظام کی بنیاد بھی یہی نظریہ ہے کہ نقدی بھی جنس کی مانند ہے جس طرح سامان کو اصل لاگت سے زائد پر فروخت کیا جا سکتا ہے اسی طرح نقدی کو بھی اس کی اصل قیمت سے زائد پر فروخت کیا جا سکتا ہے یا جس طرح جائیداد کا کرایہ لیا جا سکتا ہے اسی طرح کرنسی کا بھی
Flag Counter