تشریف لائے اور فرمایا:
’’یَا فَاطِمَۃُ ! بِالْعَدْلِ أَنْ یَقُوْلَ النَّاسُ: ’’فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰه علیہ وسلم ، وَفِيْ یَدِکِ سِلْسِلَۃٌ مِنْ ناَرٍ؟‘‘([1])
’’اے فاطمہ رضی اللہ عنہا ! کیا لوگ یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں گے: [یہ] فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اور تمہارے ہاتھ میں (دوزخ کی) آگ کی زنجیر ہے؟‘‘
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس [زنجیر] کو زبان سے شدّت سے بھینچا اور بیٹھے بغیر تشریف لے گئے۔
انہوں [یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ] نے زنجیر کے بارے میں حکم دیا اور وہ فروخت کردی گئی۔
پھر انہوں نے اس [سے حاصل ہونے والی رقم] کے ساتھ ایک غلام خرید کر آزاد کردیا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کو سنا، تو [اللہ اکبر] کہا اور فرمایا:
’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ نَجّٰی فَاطِمَۃَ رضی اللّٰه عنہا مِنَ النَّارِ۔‘‘
[’’سب تعریفیں اللہ کے لیے، کہ جنہوں نے فاطمہ۔ رضی اللہ عنہا ۔ کو (دوزخ کی) آگ سے بچالیا۔‘‘]
|