Maktaba Wahhabi

367 - 717
اور دوسرا مسٹر لیسن کا۔ خاص دہلی سے حضرت میاں صاحب اور مولانا تلطف حسین کے رفقائے سفر میں حسبِ ذیل افراد شامل تھے: شمس العلماء مولانا سیّد احمد دہلوی، حاجی محمد احمد علی جان دہلوی اور حاجی شیخ حفیظ اللہ۔[1] مخالفین کو جب اس قافلۂ حج کی خبر ملی تو انھوں نے مختلف مقامات: پنجاب، دیوبند، بدایوں اور دہلی سے چار ورقی پمفلٹ، جسے ’’گلابی چو ورقہ‘‘ سے موسوم کیا گیا، لکھ بھیجا، جس میں میاں صاحب پر سنگین نوعیت کے مذہبی الزامات عائد کیے گئے تھے۔ پہلے پہل ان مخالفین نے میاں صاحب کے قافلے کو بمبئی میں جا لیا اور وہاں کے علما کے سامنے گلابی چو ورقہ پیش کیا۔ میاں صاحب نے ان سوالات کے جواب دیے اور مخالفین کو یہاں ناکامی ہوئی، تاہم مخالفین اپنی بد نیتی سے باز نہ آئے اور میاں صاحب کے ہمراہ حجازِ مقدس تک جا پہنچے۔ ان کی کوشش تھی کہ میاں صاحب وہاں سے کسی طرح زندہ واپس نہ آئیں ۔ حکومتِ حجاز ان پر الحاد و زندیقی کا الزام لگا کر انھیں قتل کرا دے۔ مخالفین اپنا کام کرتے رہے، حکام کے کان بھرتے رہے اور حضرت میاں صاحب بھی دعوتِ توحید و سنت سے باز نہ آئے۔ منیٰ میں مسلسل تین دن وعظ دیتے رہے، جس سے دنیا بھر سے آئے ہوئے حجاجِ کرام بہت متاثر ہوئے۔ ۲۳ ذی الحجہ ۱۳۰۰ھ کو میاں صاحب کا ارادہ تھا کہ اپنے رفقا کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ نبویہ تشریف لے جائیں ، لیکن اسی دن مخالفین نے حکام کے پاس مخبری کروا دی کہ یہ شخص وہابی یا معتزلی ہے اور اس نے ’’گلابی چو ورقہ‘‘ نامی رسالہ تالیف کیا ہے جس میں خنزیر کی چربی اور خالہ سے نکاح کو حلال کہا ہے۔ ۲۳ ذی الحجہ کو جمعرات کا دن تھا۔ دس بجے صبح کے وقت محمود آغا نامی افسر تین سپاہی سمیت حاضر ہوا، اس کے ہاتھ میں چھے افراد کی گرفتاری کے وارنٹ تھے۔ ان چھے افراد کے نام یہ ہیں : مولانا سیّد نذیر حسین دہلوی، ڈپٹی امداد العلی، مولوی سلیمان (حجاج)، مولوی امیر الدین، مولوی محمد اور مولوی جان علی (مہاجرین مکہ)۔ جب یہ افسر پہنچا تو اس وقت مندرجہ بالا فہرست میں سے سوائے مولانا نذیر حسین کے اور کوئی
Flag Counter