Maktaba Wahhabi

480 - 717
شمولیت سے روپے کی تحصیل میں مشغول ہیں ۔ اس سال جو روپے جمع ہو ئے ان کی میزان دس ہزار سے زائد ہے۔ اس کی تقسیم ابراہیم نے کی، مگر معلوم نہ ہوا کہ انھوں نے اس کو جمع کہاں سے کیا۔ ان تحصیل کردہ رقوم میں سے بہت قلیل حصہ مدرسہ اور دوسرے ظاہر کردہ مدات پر صرف ہوا۔ باقی رقم کثیر غیر محسوب اور نامندرج رہی، کیونکہ غالباً سرحد کو بھیج دی گئی۔‘‘[1] یہ انگریزی نظام سے وابستہ افسران کی اطلاعات ہیں ۔ ضروری نہیں کہ سو فی صد یہ بیانات درست ہوں ۔ جزوی اعتبار سے اس میں امکاناتِ تسامح کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن ان خفیہ رپورٹوں سے یہ بات بخوبی ظاہر ہوجاتی ہے کہ مولانا ابراہیم اپنے عہدمیں انگریزی استعمار کے خلاف سرگرمی سے مصروفِ عمل و حرکت تھے۔ خود اس کی بھنک حکومتی گماشتوں کو بھی پڑ چکی تھی۔ مولانا کے گرد گھیرا تنگ کیا جانے لگا۔ ایک جاسوس کو بڑی کوششوں کے بعد مولانا کے خدمت گزار کی حیثیت سے مولانا کے قریب کیا گیا۔ وہ مسلسل مولانا کی جاسوسی کرتا رہا۔ صوم و صلاۃ کے پابند اور نوافل و اذکار کا شغل رکھنے والے اس ’’گندم نما جو فروش‘‘ پر جلد شبہہ نہ ہو سکتا تھا۔ مولانا آروی پریشان تھے کہ بیشتر راز دارانہ امور کس طرح قبل از وقت ظاہر ہو رہے ہیں ۔ آخر یہ راز اس طرح کھلا کہ ایک دن مولانا {وَلَا تَجَسَّسُوا } کی تفسیر اپنے اندازِ خاص میں فرما رہے تھے، لوگ ہمہ تن گوش تھے۔ مولانا کی تقریر کا اس جاسوس پر ایسا اثر ہوا کہ جوشِ گریہ غالب آیا اور گر کر تڑپنے لگا، لوگ اس کے اطراف جمع ہو گئے۔ مولانا بھی متوجہ ہوئے۔ آخر تنہائی میں اس نے مولانا سے اپنے فعلِ قبیح کا اعتراف اور اس پر ندامت کا اظہار کیا، مولانا نے بھی معاف کر دیا۔ وہ شخص جو مولانا کی جاسوسی کر رہا تھا، مولانا کے فیضِ صحبت سے اس کی اپنی دنیا ہی بدل گئی۔ دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں دو چار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں مولانا ایک بہت بڑے دینی نظام کو چلا رہے تھے، جس میں ایک طرف وہ انگریزی استعمار کو ٹکر دے رہے تھے تو دوسری طرف علومِ دینی کی تبلیغ و اشاعت کا بہت بڑا کارنامہ بھی سر انجام دے
Flag Counter