Maktaba Wahhabi

553 - 717
اس کے بر عکس مولانا توصیف الرحمن نے لکھا ہے کہ مولانا عبد الہادی کلکتہ ہائی کورٹ میں وکالت کرتے تھے اور وہیں ان کی ملاقات سیّد احمد شہید سے ہوئی اور کلکتہ ہی میں اپنے خانوادے کے ہمراہ انھوں نے اسلام قبول کیا۔[1] واللّٰه أعلم بالصواب مولانا عبد الہادی نے شاہ اسماعیل شہید سے تعلیم کا آغاز کیا اور مولانا ولایت علی صادق پوری، علامہ اولاد حسن قنوجی اور شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی سے تکمیلِ علم کیا۔ قبولِ اسلام کے بعد مغربی چمپارن کے ایک مقام جھمکا کو اپنی مستقل اقامت کے لیے پسند کیا۔ سیّد احمد شہید نے انھیں چھپرہ اور چمپارن میں اپنا خلیفہ مقرر کیا۔ مولانا عبد الہادی اپنے زمانے کے عظیم مبلغ تھے۔ انھوں نے پوری زندگی دعوت و ارشاد میں گزار دی۔ دعوت و تبلیغ کی راہ میں مخالفتیں بھی ہوئیں اور اذیتیں بھی دی گئیں ۔ ایک طرف ان کی اپنی ہی برادری قبولیتِ اسلام کے جرم میں ان کے در پہ آزار رہی تو دوسری طرف بدعات و محدثات میں مبتلا طبقے ان کی مخالفت پر کمربستہ رہے۔ تاہم یہ ابتلا و مصائب مولانا کو ان کی راہ سے منحرف نہ کر سکے۔ مولانا نے کئی کتابیں لکھیں ، مگر افسوس کہ زیورِ طبع سے آراستہ نہ ہو سکیں ۔ ان کی ایک کتاب ’’بلبلِ باغِ نبی‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔ مولانا حجِ بیت اللہ کے بڑے آرزو مند تھے۔ عازمِ سفر بھی ہو گئے تھے کہ ۱۲۶۵ھ میں بحالتِ سفر حج بمبئی (موجودہ ممبئی) میں وفات پائی۔[2] مولانا کی نسل میں اللہ نے بڑی برکت دی، ان کی نسل سے کبار علماء و مبلغین پیدا ہوئے، جنھوں نے طرح طرح سے دین کی خدمت انجام دیں ۔ مولانا کے دو فرزند تھے، مولانا عبد الکریم اور مولانا عبد الرحیم۔ ان کے سلسلہ احفاد سے پانچ افراد نے شیخ الکل السید الامام نذیر حسین محدث دہلوی سے کتبِ حدیث و تفسیر پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ جن کے اسمائے گرامی حسبِ ذیل ہیں :
Flag Counter