Maktaba Wahhabi

97 - 108
سیدنا طفیل بن عمرو الدوسی اپنے قبیلہ دوس کے سردار تھے۔ اپنے کسی کام سے مکہ آئے۔ ان دنوں مکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور کفارِ مکہ میں ایمان و کفر کی معرکہ آرائی شروع ہو چکی تھی۔ اپنے قبیلے کا سردار ہونے کی وجہ سے سرداران قریش نے بڑی گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا اور خاص طور پر انہیں نبی اکرم کے پاس جانے یا ان کی بات سننے سے منع کر دیا۔ ایک دن وہ جب طوافِ کعبہ کے لیے آئے تو ازراہ احتیاط اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تاکہ ان کے کانوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی آواز نہ آئے۔ ایک دفعہ تو وہ غیر ارادی طور پر ان کے قریب پہنچ گئے اور انہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت اچھی اور عمدہ باتیں سنیں۔ اپنے دل میں کہنے لگے طفیل! تم اپنی قوم کے سردار ہو۔ یہ تمہاری کیسی بے وقوفی ہے کہ کانوں میں روئی ٹھونسے پھر رہے ہو۔ ان کی بات سنو اچھی لگے تو قبول کرو ورنہ انکار کر دو۔ یہ سوچ کر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے ان کے گھر پہنچ گئے۔ اور انہیں کہا کہ مجھے اپنا پیغام سنائیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سورہ اخلاص اورالفلق سنائیں۔ جب یہ آیات وہ سن چکے تو کہنے لگے۔ بخدا اس سے بہتر کلام میں نے آج تک نہیں سنا چنانچہ وہیں کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔ کچھ دن وہ مکہ میں احکامِ اسلام کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ قرآن مجید کا کچھ حصہ زبانی یاد کر لیا۔ اپنی قوم کی طرف جانے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے کہ میں اب واپس جانے کی اجازت چاہتا ہوں۔ میرا قبیلہ میری بات مانتا ہے۔ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے کوئی ایسی نشانی عطا کرے کہ جب میں انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاؤں تو وہ میرے مددگار ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کی۔ الٰہی اس کو اس طرح کی نشانی عطا کر جو ہر وقت اس کے کام آئے‘ جب بھی خیر و خوبی کا قصد کرے۔ جب وہ اپنی بستی کے قریب پہنچے۔ جہاں سے قوم کے در و دیوار صاف نظر آرہے تھے۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ اچانک ان کی پیشانی پر چراغ کی مانند ایک روشنی چمک رہی ہے۔ انہوں نے د عا کی یا اللہ اس روشنی کو کسی دوسری جگہ منتقل کر دے۔ مبادا میری قوم میرا چہرہ دیکھ کر کہے کہ یہ آبائی دین کو چھوڑنے کی سزا ہے۔ ان کے یہ کہنے پر وہ روشنی ان کے نیزے کے
Flag Counter