Maktaba Wahhabi

132 - 315
خالق، مالک اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے۔ رب ہی عبادت کا استحقاق رکھتا ہے: اس امر کی دلیل کہ رب ہی عبادت کا مستحق ہے، یہ آیات ہیں: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (21) الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلّٰهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾ ’’اے لوگو!اپنے رب کی عبادت کرو، جس نے تمھیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم متقی بن جاؤ۔(عبادت کی مستحق وہی ذات ہے) جس نے تمھارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا ہے اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمھیں روزی دی، لہٰذا تم اللہ کے ساتھ (کسی کو) شریک نہ ٹھہراؤ، حالانکہ تم جانتے ہو (کہ صرف وہی تمھارا رب ہے)۔‘‘ [1] اس آیت میں سب لوگوں کو مخاطب کرکے اعلان کیا جارہا ہے اور انھیں حکم دیا جارہا ہے کہ وہ اللہ وحدہ لا شریک ہی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا ہمسر اور مدمقابل نہ بنائیں۔اس سے یہ وضاحت ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس لیے بھی عبادت کا مستحق ہے کہ وہ اکیلا ہی خالق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ عربی گرامر کے حساب سے ﴿اَلَّذِي خَلَقَكُمْ ﴾ کے الفاظ ﴿رَبَّكُمُ ﴾کے الفاظ کی صفتِ کا شفہ ہیں، یعنی ایسی صفت جو موصوف کی مزید وضاحت کے لیے لائی جاتی ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ یہ الفاظ، عبادت کے حکم کی اصل وجہ بھی بیان کرتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اس لیے کرو کہ اسی نے تمھیں اور تمھارے آباء و اجداد کو پیدا کیا ہے۔اس کے رب اور خالق ہونے کی وجہ سے لازم آتا ہے کہ تم اسی کی بندگی کرو۔اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں: وہ شخص جو اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا رب ہے، اسے اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرنی ہو گی ورنہ اس کا قول اس کے عمل کے خلاف ٹھہرے گا۔ مذکورہ آیت کے آخر میں فرمایا: ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴾ تاکہ تمھیں تقویٰ (ہر طرح کا بچاؤ اور تحفظ) حاصل ہو۔تقویٰ کے معنی ہیں: اللہ تعالیٰ کے احکام کا اتباع کرنا اور جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے، ان
Flag Counter