Maktaba Wahhabi

151 - 315
فلسفہ وحدت الوجود، وحدت الشہود اور حلول بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت اور ریاضت کے ذریعے سے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جز سمجھنے لگتا ہے، تصوف کی اصطلاح میں اس عقیدے کو وحدت الوجود کہا جاتا ہے۔عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی کرنے کے بعد انسان کی ہستی اللہ کی ہستی میں مدغم (داخل) ہو جاتی ہے اور انسان کا الگ سے اپنا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔اس عقیدے کو وحدت الشہود یا ’’فنافی اللہ‘‘ ہونا کہا جاتا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدر لطیف اور صاف ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہو جاتی ہے جسے حلول کہا جاتا ہے، گویا یہ بھی خالق اور مخلوق کی وحدت ہی کا ایک انداز ہوا۔ غور کیا جائے تو ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجے کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ کہ انسان اللہ کی ذات کا جز اور حصہ ہے۔یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ہندومت کے عقیدہ ’’اوتار‘‘، بدھ مت کے عقیدہ ’’نرواں‘‘ اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہی ہے۔ مسلمانوں میں اس کی ابتدا عبداللہ بن سبا نے کی جو یمن کا یہودی تھا، عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہودیوں کی ذلت و رسوائی کا انتقام لینے کے لیے منافقانہ طور پر عہد فاروقی (یا عہد عثمانی) میں ایمان لایا۔اپنے مذموم عزائم بروئے کار لانے کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مافوق البشر ہستی باور کرانا شروع کیا بالآخر اپنے معتقدین کا ایک ایسا حلقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کا اصل حقدار اور باقی خلفاء کو غاصب سمجھنے لگا۔اس گمراہ کن پروپیگنڈے کے نتیجے میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت واقع ہوئی۔
Flag Counter