Maktaba Wahhabi

33 - 315
تمام خوشیاں بخشتی تھیں۔دوسری ہستی برائی کے بھوتوں کی تھی جو طرح طرح کی مصیبتوں اور ہلاکتوں کا سبب تھی۔آگ کی پوجا کے لیے قربان گاہیں بنائی جاتی تھیں اور ان کے پجاریوں کو ’’موگوش‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔’’کاریان‘‘ اور ’’کاری‘‘ بھی انھی کے نام تھے۔آگے چل کر اسی موگوش نے آگ کی پوجا کا مفہوم پیدا کر لیا اور غیر قومیں ایرانیوں کو ’’ مگ‘‘ اور ’’مگوش‘‘ کے نام سے پکارنے لگیں۔عربوں نے اسی ’’مگوش‘‘ کو ’’مجوس‘‘ بنا دیا۔ مزدیسنا: ایرانی پیغمبر زردشت کے مذہب کو مزدیسنا یا زردشتی مذہب کہتے ہیں۔زردشت کا جب ظہور ہوا تو اس نے ایران کو اِن پرانے عقیدوں سے نجات دلائی اور ’’مزدیسنا‘‘ کی تعلیم دی، یعنی دیوتاؤں کی جگہ ایک خدا ’’اہورا مزدا‘‘ (یزدان) کی پوجا اور عبادت کی تلقین کی۔یہ ’’اہورا مزدا‘‘ بالکل اکلوتا ہے، بے ہمتا ہے، بے مثال ہے، نور ہے، پاکی ہے، سراسر حکمت ہے، بھلائی ہے اور تمام کائنات کا پیدا کرنے والا ہے۔اس نے انسان کے لیے دو جہان بنائے۔ایک اس دنیا کی زندگی کا ہے، دوسرا مرنے کے بعد کی زندگی کا۔مرنے کے بعد جسم ختم ہو جاتا ہے مگر روح باقی رہتی ہے اور اپنے کیے ہوئے کاموں کے مطابق بدلہ پاتی ہے۔دیوتاؤں کی جگہ اس نے ’’امش سپند‘‘ اور ’’یزتا‘‘ کا تصور پیدا کیا، یعنی فرشتوں کا۔یہ فرشتے ’’اہورا مزدا‘‘ کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔برائی اور اندھیرے کی طاقتوں کی جگہ شیطان کی خبر دی، یہی شیطان ’’پاژند‘‘[1] کی زبان میں ’’اہرمن‘‘ ہوگیا۔زردشت کی تعلیم میں ہندوستانی آریاؤں کے ویدی عقائد کا رد بڑے صاف الفاظ میں موجود ہے۔یہ رد اس حد تک ہے کہ ایک کا خدا دوسرے کے نزدیک شیطان تھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ چند صدیوں کے بعد ایران کے پرانے نظریات اور خارجی اثرات پھر غالب آگئے اور ساسانی[2] دور میں جب مزدیسنا کی تعلیم نئے سرے سے مرتب ہوئی تو یہ پرانے مجوسی، یونانی اور زردشتی عقیدوں کا ایک ملا جلا مرکب تھا۔اور اس کا بیرونی رنگ و روغن تمام تر مجوسی تصور ہی نے دیا تھا۔جب اسلام کا ظہور ہوا تو یہی مخلوط تصور ایران کا قومی مذہبی تصور تھا۔مغربی ہند کے پارسی مہاجر یہی تصور اپنے ساتھ ہندوستان سے لائے اور یہاں مقامی اثرات کی ایک اور تہ اس پر چڑھ گئی۔ مجوسی تصور کی بنیاد ثنویت (Dualism) پر تھی، یعنی خیر اور شر کی دو الگ الگ طاقتیں ہیں، ’’اہورا مزدا‘‘
Flag Counter