Maktaba Wahhabi

316 - 315
پھر ان کا مطلب وہی لیا جائے جس سے ان کے مابین تعارض نظر نہ آئے۔ہمارے نزدیک یہ دوسرا نقطۂ نظر ہی صحیح ہے کیونکہ دو صحیح احادیث میں حقیقی تعارض ہو ہی نہیں سکتا اور جو ظاہری تعارض نظر آتا ہے، وہ ہماری اپنی ہی کم فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے، حقیقت میں تعارض نہیں ہوتا اور محدثین ان میں ایسی تطبیق (باہمی مطابقت) دے لیتے ہیں کہ دونوں روایات اپنی اپنی جگہ ٹھیک بیٹھ جاتی ہیں۔ مسئلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے چند بنیادی امور کی وضاحت ضروری ہے: 1 قرآن و سنت کو فہم صحابہ کے مطابق سمجھنا اور ماننا ضروری ہے۔اگر کوئی شخص قرآن و حدیث کی من مانی تفسیر اور تشریح کرتا ہے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔قرآن مجید میں ’’سبیل المومنین‘‘ سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کرنے کو گمراہی کہا گیا ہے اور ’’سبیل المومنین‘‘ سے مراد صحابہ اور تابعین کی راہ ہے۔ 2 کسی موضوع کی صرف ایک روایت کو لے لینا اور باقی کو ترک کر دینا خواہش پرستی ہے۔حق یہ ہے کہ کسی بھی موضوع سے متعلق تمام آیات اور احادیث کو دیکھ کر معنی متعین کیا جائے تاکہ روایات میں بظاہر تضاد پیدا نہ ہو۔ 3 آیات اور احادیث کے معنی کرتے وقت عربی زبان کا اسلوب اور محاوروں کا بھی خیال رکھا جائے اور وہ معنی لیے جائیں جو لغت عرب میں پائے جاتے ہوں۔ 4 لا الہ الا اللہ کے معنی اور شرائط کو ماننا اور جاننا ازحد ضروری ہے۔ ان معروضات کے بعد عرض ہے کہ مذکورہ بالا حدیث سے یہ استدلال کرنا کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سرے سے شرک کا وجود ہی نہیں ہے۔درج ذیل وجوہات کی بنا پر محل نظر ہے: 1 کسی صحابی، تابعی یا امام نے اس حدیث سے یہ نہیں سمجھا کہ امت محمدیہ میں شرک نہیں پایا جاسکتا۔ 2 اس سے مراد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہے، یعنی خطاب خصوصاً صحابۂ کرام کے بارے میں ہے، اس میں امت کا لفظ نہیں ہے۔اور اگر اس سے امت ہی مراد لینے پر اصرار کیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری امت شرک میں مبتلا نہیں ہوگی۔ حافظ ابن حجر اور امام نووی رحمہما اللہ وغیرہ نے مذکورہ معنی ہی ذکر کیے ہیں اور حدیث کے یہ دونوں معنی ہی
Flag Counter