Maktaba Wahhabi

294 - 315
شرک کے لغوی و اصطلاحی معنی یہ ایک شرعی حقیقت ہے کہ شرک سے زیادہ ناپاک، برا اور تباہ کن جرم اور کوئی نہیں۔’’شرک‘‘ معنوی اعتبار سے تو قابل نفرت اور موجب حقارت ہے ہی مگر لفظی طور پر بھی صرف مسلمانوں ہی کے نزدیک نہیں بلکہ غیر مسلموں کی نظر میں بھی نفرت، حقارت اور بیزاری کی چیز ہے۔مثال کے طور پر یہود اپنے آپ کو یہودی کہلانا تو پسند کرتے ہیں مگر وہ اپنے آپ کو کافر یا مشرک کہلانا گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح عیسائی، ہندو، بدھ مت اور سکھ دھرم کے ماننے والے بھی اپنے آپ کو مذکورہ ناموں سے موسوم کرنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے مگر یہ لوگ بھی اپنے آپ کو مشرک یا کافر کہلوانا برداشت نہیں کرتے۔اس سے واضح ہوا کہ ’شرک‘ کا لفظ اپنی ظاہری کیفیت کے اعتبار سے بھی انتہائی مکروہ ہے مگر سخت حیرت کی بات ہے کہ اس لفظ سے اس قدر نفرت و کراہت کے باوجود اکثر لوگ شرک کی تمام ظاہری و معنوی خباثتوں میں ملوث اور اس کی تباہ کاریوں کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور اپنا جائزہ لینے پر قطعاً تیار نہیں ہوتے إِلَّا مَا شَائَ اللّٰہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ﴿ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ﴾ ’’اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر اس حالت میں ایمان رکھتے ہیں کہ وہ مشرک بھی ہیں۔‘‘[1] شرک کی حقیقت سے بے خبر ہونے کی وجہ سے لوگ شرک کے ظاہری لفظ سے تو شدید نفرت کا اظہار کرتے ہیں مگر حقیقت سے لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے وہ اس کا بری طرح شکار بھی ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہم اس باب میں سب سے پہلے شرک کے مفہوم کی وضاحت کریں گے۔اس کے بعد اس کی قسموں کی تفصیل بتائیں گے تاکہ اس مرض میں مبتلا مریضوں کو حقیقتِ حال کا علم ہو جائے۔
Flag Counter