Maktaba Wahhabi

56 - 315
میں تاویل کرنا پسند نہیں کرتے تھے، اسی بنا پر انھوں نے جہمیہ کے انکارِ صفات کو تعطیل سے تعبیر کیا اور معتزلہ و اشاعرہ کی تاویلوں میں بھی تعطیل کی بو انھیں صاف محسوس ہوئی۔متکلمین[1] نے ان پر تَجَسُّم اور تَشَبُّہ کا الزام لگایا لیکن وہ کہتے تھے کہ تمھارے موقفِ تعطیل سے تو ہمارا نام نہاد تشبہ ہی بہتر ہے کیونکہ یہاں عقیدے کے لیے ایک تصور تو باقی رہ جاتا ہے، تمھارے سلب و نفی کے نظریوں کے بعد تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔متأخرین اصحابِ حدیث میں سے امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد امام ابن قیم نے اس مسئلے کی گہرائیوں کو خوب سمجھا اور اسی لیے سلف کے مسلک سے ہٹنا کبھی گوارا نہیں کیا۔ 2 صفات رحمت و جمال: تنزیہ کی طرح صفات رحمت و جمال کے لحاظ سے بھی قرآن کے تصور کی شان تکمیل نرالی ہے۔نزول قرآن کے وقت یہودی تصور میں قہر و غضب کا عنصر غالب تھا۔مجوسی تصور نے نور و ظلمت کی دومساویانہ قوتیں الگ الگ بنا لی تھیں۔مسیحی تصور نے رحم و محبت پر زور دیا تھا لیکن جزا اور سزا کی حقیقت دب کر رہ گئی تھی۔اسی طرح بدھ کے پیروکاروں نے بھی صرف رحم و محبت پر زور دیا لیکن عدالت کا تصور موجود نہیں تھا۔جبکہ قرآن نے ایک طرف تو رحمت و جمال کا ایک ایسا کامل تصور پیدا کر دیا کہ ایسا لگتا ہے یک طرفہ قہر و غضب کے لیے کوئی جگہ ہی نہ رہی، دوسری طرف اعمال کی جزا کا اثبات اس انداز سے کیا کہ جزا کا عقیدہ قہر و غضب کی بنا پر نہیں بلکہ عدالت کی بنا پر قائم کر دیا۔ مطلب یہ ہے کہ اعمال کی جزا عدل کا تقاضا ہے، چنانچہ صفات باری تعالیٰ کے بارے میں اس کا عام اعلان یہ ہے: ﴿قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ﴾ ’’(اے پیغمبر!) ان سے کہہ دو: تم اللہ کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمان کہہ کر پکارو، جس نام کے ساتھ تم پکارو، اسی کے لیے ہیں سب نام سب سے اچھے۔‘‘[2] یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفتوں کو ’’اسمائے حسنیٰ‘‘ قرار دیتا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت بھی ایسی نہیں جو حسن و خوبی کی صفت نہ ہو۔یہ صفات کیا کیا ہیں؟ قرآن نے پوری وسعت کے ساتھ انھیں جابجا ذکر کیا ہے۔ان میں ایسی صفات بھی ہیں جو بظاہر قہر و جلال کی صفتیں ہیں، مثلاً: جبار،
Flag Counter