Maktaba Wahhabi

70 - 315
ناممکن ہے، اسی لیے اس کی صفات (قدرت و کاریگری) کے مناظر و مظاہر میں غور و فکر کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ یہ یقین پختہ ہو جائے کہ تمام اختیارات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور ذاتِ باری کے وجود کے بغیر کائنات کا وجود ناممکن ہے۔اسی لیے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((تَفَکَّرُوا فِی آلَاءِ اللّٰہِ وَلَا تَفَکَّرُوْا فِی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ)) ’’اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کرو، اللہ عزوجل کی ذات (کی حقیقت) کے بارے میں بحث مباحثہ نہ کرو۔‘‘[1] 2 تکوینی امور میں غورو فکر: کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر گواہ ہے۔شرط یہ ہے کہ اس پر غور و فکر کیا جائے۔انسان یا کائنات کی دیگر اشیاء بذات خود وجودمیں نہیں آئیں۔ان کا باہم ربط اور ایک دوسرے کے لیے مفید ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا کوئی خالق اور پیدا کرنے والا ہے جس نے اسے کسی خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ان چیزوں میں تضاد کا نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کا خالق ایک ہی ہے۔ایک سے زیادہ نہیں ہوسکتے۔اگر ایک سے زیادہ خالق ہوتے تو یہ نظام کائنات کبھی قائم نہ رہ سکتا۔قرآن مجید میں اس کی طرف یوں اشارہ کیا گیا: ﴿لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴾ ’’اگر ان دونوں (زمین وآسمان) میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو ضرور یہ دونوں تباہ ہوجاتے، اللہ، عرش کارب ان باتوں سے پاک ہے جو وہ (مشرک) بیان کرتے ہیں۔‘‘[2] کائنات کی ہر چیز اپنی تخلیق کا مقصد پورا کر رہی ہے اور اس نظام میں ذرہ بھر خلل نہیں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود کار نظام نہیں بلکہ اس کا کوئی خالق ہے کہ ہر چیز کی ایک ترکیب ہے اور اسی وضع قطع میں وہ مفید ہے جس میں اسے رکھا گیا ہے، مثال کے طور ہم راہ گزرتے کوئی پتھر دیکھیں جسے سلیقے سے اس انداز میں رکھا گیا ہو کہ آدمی اس پر بیٹھ سکتا ہو تو ہم کہیں گے کہ کسی نے بیٹھنے کے لیے رکھا ہے لیکن اگر وہ
Flag Counter