Maktaba Wahhabi

234 - 315
’’تو جس نے (اللہ کے راستے میں مال) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور نیک بات کو سچ جانا، یقینا ہم اسے آسان طریقے (نیکی) کی توفیق دیں گے اور جس نے بخل کیا اور بے پروا بنارہا اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا تو یقینا ہم اسے مشکل راہ (بدی) کے لیے سہولت دیں گے۔‘‘[1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابِ تقدیر پر بھروسا کرتے ہوئے عمل ترک کردینے سے منع فرما دیا ہے کیونکہ یہ بات معلوم کرنے کا کوئی طریقہ یا ذریعہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کتابِ تقدیر میں کیا لکھ رکھا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے بندوں کو اپنی طاقت و استطاعت اور مقدور کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ نے اس آیت کریمہ سے استدلال فرمایا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص نیک عمل کرے اور ایمان لے آئے تواسے آسان طریقے (نیکی) کی توفیق دے دی جاتی ہے۔یہی نافع اور ثمر آور طریقہ ہے، اسی سے انسان یہ عافیت و سعادت حاصل کرسکتا ہے کہ وہ ایمان پر مبنی عمل صالح کے لیے سرگرم عمل ہوجائے اور جب اسے دنیا و آخرت کی بھلائیوں کے لیے آسانی کی توفیق مل جائے تو وہ اس پر خوشی کا اظہار کرے۔میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے، آسان طریقے کی طرف رہنمائی فرمائے، مشکل اور سخت طریقے سے بچائے اور دنیا و آخرت میں ہمیں معاف فرما دے۔ کیا دعا سے تقدیر بدل سکتی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ دعا کی تاثیر سے، لکھی ہوئی تقدیر میں تبدیلی ہوسکتی ہے لیکن اس تبدیلی کے بارے میں بھی لکھ دیا گیا ہوتا ہے کہ یہ تبدیلی دعا کے سبب سے ہوگی، لہٰذا آپ یہ گمان نہ کریں کہ جب آپ دعا کرتے ہیں تو وہ تقدیر میں لکھی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ وہ دعا بھی لکھی ہوئی ہوتی ہے اور اس دعا سے حاصل ہونے والی چیزیں بھی لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں جب کوئی شخص مریض پر آیات پڑھ کر اسے دم کرتا ہے تواسے شفا نصیب ہوجاتی ہے کیونکہ اس کی تقدیر میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ فلاں بندہ اس مریض پر دم کرے گا اور اسے شفا مل جائے گی۔اس جنگی مہم کا قصہ مشہور ہے جس کے لیے
Flag Counter