Maktaba Wahhabi

168 - 315
’’جس شخص نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا۔‘‘[1] یہ حدیث بھی کفر اصغر پر دلالت کرتی ہے؟ ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِثْنَتَانِ فِی النَّاسِ ھُمَا بِھِمْ كُفْرٌ، اَلطَّعْنُ فِی النَّسَبِ وَالنِّیَاحَۃُ عَلَی الْمَیِّتِ)) ’’لوگوں میں دو چیزیں ایسی ہیں جو ان کے حق میں کفر ہیں: خاندان (نسب) کا طعنہ دینا اور میت پر نوحہ اور بین کرنا۔‘‘[2] متعین شخص کو کافر قرار دینے کا ضابطہ عقیدۂ سلف صالحین، اہل سنت والجماعت کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ وہ کسی ایسے مسلمان کو متعین طور پر کافر قرار نہیں دیتے جس نے کسی کفریہ فعل کا ارتکاب کیا ہو، حتی کہ اس شخص پر حجت قائم کی جائے اگر پھر بھی وہ کفر سے باز نہ آئے تو پھر اسے کافر قرار دیا جائے گا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دیگر شرائط بھی پوری ہوں، کوئی مانع نہ ہو، اس نے کفریہ بات کا ارتکاب جہالت و تاویل کے بغیر کیا ہو۔تکفیر معین دراصل اسلامی حکومت میں متعدد مراحل سے گزر کر مکمل ہوتی ہے۔ ٭ عدالت اس بات کی تحقیق کرے گی کہ ملزم سے جرم صادر ہوا ہے یا نہیں؟ ٭ مستند علماء کا پینل (دارالافتاء) اس بات کی تحقیق کرے گا کہ ملزم سے جو جرم صادر ہوا ہے اس سے بندہ مرتد ہوتا ہے یا نہیں؟ ٭ اگر دونوں باتیں ثابت ہو جائیں تو پھر حکومت مجرم کو توبہ و اصلاح کی دعوت دے گی وہ تائب ہو جاتا ہے تو ٹھیک ورنہ وہ اس پر حدِّ ارتداد نافذ کر دے گی (اسے قتل کر دیا جائے گا۔) ٭ اگر عام آدمی قانون کو ہاتھ میں لے تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ ادھر تو ہر فرقہ دوسرے فرقے کو مرتد سمجھتا ہے۔
Flag Counter