Maktaba Wahhabi

295 - 315
شرک کے لغوی معنی شرک کا لفظ لغوی طور پر ملاوٹ، حصہ داری، شراکت اور اختلاط کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔لغت کی مشہور و متداول کتاب ’’لسان العرب‘‘ میں شرک کے معنی اس طرح بیان ہوئے ہیں: ’’شرک، شِرکہ اور شَرِکہ ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں، یعنی دو حصہ داروں کا آپس میں مل جانا … مزید برآں اکثر کہا جاتا ہے: ’’ اِشْتَرَکْنَا ‘‘ یعنی ہم حصہ داری میں ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے۔اسی طرح ’’ اِشْتَرَكَ الرَّجُلَانِ ‘‘ اور ’’ شَارَكَ أَحَدُھُمَا الْآخَرَ ‘‘ کا بھی ایک ہی مفہوم ہے، یعنی دو آدمیوں کا کسی شے میں مشترکہ طور پر حصہ دار ہونا تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھی بن جائیں۔‘‘[1] شرک کے اصطلاحی معنی شرعی اصطلاح کے اعتبار سے شرک کے مختلف معنی بیان کیے گئے ہیں، مثلاً: اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں کسی اور کو حصہ دار تصور کرنا، جیسے زمین و آسمان میں تدبیر و تصرف کی صفت، علم ذاتی کی صفت یا شفا اور بیماری دینے کی صفت میں کسی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا شریک اور حصہ دار قرار دینا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے شرک کا جو مفہوم بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:’’شرک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص صفات میں کسی کو حصہ دار اور ساجھی قرار دیا جائے، مثلاً: کسی کے متعلق اس قسم کا دعویٰ کرنا کہ وہ اپنے ارادے سے کائنات میں تصرف (جسے کُنْ فَیَکُونُ سے تعبیر کیا جاتا ہے) کرتا ہے۔اسی طرح حواس خمسہ، عقلی استدلال اور خواب یا الہام کے (علمی واکتسابی ذرائع کے) بغیر ذاتی علم رکھتا ہے یا وہ قادر ہے کہ کسی کو شفا دے یا کسی پر مہربان ہو جائے تو اس کا رزق وسیع کر دے اور اگر کسی سے ناراض ہو جائے تو اسے رحمت سے دور کر دے اس کے رزق میں تنگی پیدا کر دے یا اسے بیمار کر دے یا اسے بدبخت بنا دے۔‘‘[2] عام فہم زبان میں شرک کا ایک عمومی مفہوم یہ ہے کہ کتاب و سنت کی رو سے جو چیز اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے، اس میں کسی مخلوق کو جان بوجھ کر یا لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے شریک سمجھا جائے یا (عملاً) شریک کر دیا جائے۔واللّٰہ أعلم۔
Flag Counter