Maktaba Wahhabi

266 - 315
اس ڈیوٹی پر فائز نہیں ہے کہ لوگوں کی دعائیں سنے اور پوری کرے۔ دوسری قسم: اصحاب قبور میں سے دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جن کے افعال ایسے فسق و فجور تک پہنچ گئے ہوں جن کی وجہ سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہو، مثلاً: وہ لوگ جو اپنی زبان سے خود دعویٰ کرتے ہوں کہ وہ پہنچے ہوئے ہیں، غیب جانتے ہیں، بیماری سے شفا عطا کر سکتے ہیں اور وہ ایسے مختلف طریقوں سے نفع پہنچاتے ہیں جو حسی اور شرعی طور پر معلوم نہیں تو ایسے لوگوں کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے، ان کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے منع فرما دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (113) وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلّٰهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴾ ’’نبی اور اہل ایمان کے لیے لائق نہیں کہ جب ان پر واضح ہوگیا کہ مشرک (شرک پر مرنے کی وجہ سے) اہل دوزخ میں سے ہیں تو ان کے لیے بخشش مانگیں، چاہے وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں۔اور ابراہیم(علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا تو ایک وعدے کی بنا پر تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے (شائد وہ توبہ کر لے) لیکن جب ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے برأت کا اظہار کر دیا۔کوئی شک نہیں کہ ابراہیم بڑے نرم دل اور تحمل والے تھے۔‘‘[1] ایسے لوگ کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع، نہ کسی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے امیدیں وابستہ کرے۔اگر ایسا ہو کہ کسی کو ان کی کچھ کرامات نظر آتی ہوں، مثلاً: کسی نے ان کی قبروں میں نور دیکھا ہو یا ان کی قبروں سے اچھی خوشبو وغیرہ محسوس کی ہو جبکہ ان کے بارے میں مشہور یہ ہو کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے تو یہ باتیں شیاطین کا دھوکا اور فریب ہوں گی تاکہ وہ لوگوں کو ان قبروں والوں کی وجہ سے فتنے میں مبتلا کر دے۔
Flag Counter