Maktaba Wahhabi

129 - 440
لہٰذا لغت عرب میں استواء کی تفسیر ’’استیلاء‘‘ کے ساتھ قطعاً نہیں جاسکتی۔ یہ ایک بدعتی تفسیر ہے۔ اور یہ شعر خود ساختہ ہے، اسے لغت عرب میں داخل کرنا جھوٹ ہے۔ یہ تو ایک دلیل ہوئی جبکہ دوسری دلیل: دوسری دلیل یہ ہے کہ اس سے ایک باطل نتیجہ لازم آئے گا۔ اور وہ یہ ہے کہ جب ہم ’’استوی‘‘ کی تفسیر ’’استولی علی العرش‘‘ (عرش پر قبضہ کرلیا) کے ساتھ کریں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ عرش پہلے اللہ تعالیٰ کے پاس نہیں تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کے پہلے مالک سے چھینا اور اس پر غالب آکر اس کا مالک بن گیا۔ (العیاذ باللہ) حالانکہ یہ عقیدہ کفر اور گمراہی ہے۔ علاوہ ازیں اگر ’’استواء‘‘ کی تفسیر ’’استیلاء‘‘ (قبضہ کرنا) کی جائے تو یہ صرف عرش تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات پر بعد میں قبضہ کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس تفسیر کا بیس (۲۰) وجوہات کے ذریعے ردّ کیا ہے۔ یہ آپ کو فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ میں مل سکتی ہیں۔ مزید برآں ’’استواء‘‘ کا ذکر سات آیات میں آیا ہے اور سب میں یہی لفظ ہے: ﴿ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (الاعراف:۵۴)، (طٰہ:۵) اور ان میں سے کسی میں بھی ’’استولی‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں جن کی بنیاد پر ’’استوی‘‘ کی تفسیر یہ کی جاسکے۔ لہٰذا جب تمام آیات میں ایک ہی طرح کے الفاظ ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا معنی بھی ایک ہی ہے۔ اور وہ ہے ’’علوّ‘‘ (بلندی) اور ’’ارتفاع‘‘ (بلند ہونا)۔ اور استواء چونکہ فعلی صفات میں سے ہے، اس لیے اس کا عطف ’’ثم‘‘ کے ساتھ ’’خلق السموات والارض‘‘ پر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا: ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلٰی الْعَرْش﴾ (الحدید:۴) ’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر
Flag Counter