Maktaba Wahhabi

130 - 440
بلند ہوا۔‘‘ الغرض یہ اللہ تعالیٰ کی صفات افعال میں سے ہے۔ وہ جب چاہے یہ کام کرتا ہے۔ علوّ (بلندی): یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ذاتی ہے جو اس سے کبھی الگ نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی بلند رہتا ہے۔ لیکن ’’استواء‘‘ اللہ تعالیٰ کی فعلی صفت ہے جسے وہ جب چاہتا ہے سر انجام دیتا ہے۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ: اہل سنت والجماعت سلفی جماعت حقہ وطائفہ منصورہ، اللہ تعالیٰ کے عرش پر قائم ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں: قرآن کریم میں استواء کئی معانی میں آتا ہے۔ یہ لازم غیر متعدی نہیں آتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں: ﴿وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ اسْتَوٰٓی﴾ (القصص:۱۴) ’’اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور پورا طاقتور ہو گیا ۔‘‘ اس کا معنی ہے: مکمل اور پورا ہونا۔ اور جب اسے ’’الی‘‘ کے ساتھ متعدی کیا جاتا ہے تو اس کا معنی ہوتا ہے قصد کرنا۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ﴾ (البقرہ:۲۹) ’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا۔‘‘ اور جب اس کو ’’واؤ‘‘ کے ساتھ متعدی کیا جائے تو اس کا معنی ہوتا ہے برابری۔ مثلاً آپ کہتے ہیں۔ ((اِسْتَوَی الْمَائُ وَالْخَشَبَۃُ۔)) … ’’یعنی پانی اور لکڑی برابر ہوگئے۔‘‘ ((اِسْتَوٰی فُـلَانٌ وَفُـلَانٌ۔)) … ’’یعنی فلاں اور فلاں برابر ہوگئے۔‘‘ اور جب اسے ’’علیٰ‘‘ کے ساتھ متعدی کیا جائے تو اس کا معنی ہوتا ہے: بلند ہونا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَالَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّہَا وَجَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْفُلْکِ وَالْاَنْعَامِ مَا
Flag Counter