Maktaba Wahhabi

132 - 440
جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا ہے؟‘‘ السماء: اس سے مراد ’’علو‘‘ (بلندی) ہے۔ چنانچہ ﴿مَنْ فِی السَّمَآئِ﴾ سے مراد: ’’من فی العلو‘‘ ہے۔ یعنی اس کا ظاہری معنی ہے ’’بلندی میں‘‘۔ لیکن اگر ’’سماء‘‘ سے مراد وہ آسمان لیا جائے جس کی سات تہیں (سات طبق) ہیں تو ’’فی السماء‘‘ کا معنی ہوگا: آسماں پر۔ کیونکہ ’’فی‘‘ ’’علیٰ‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ﴾ … ’’پس زمین میں چلو پھرو۔‘‘ یعنی زمین پر چلو پھرو۔ اور: ﴿وَ لَأُصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ﴾ (طٰہٰ:۷۱) ’’اور ضرور ہر صورت تمھیں کھجور کے تنوں پر بری طرح سولی دوں گا۔‘‘ لہٰذا جب آسمان سے مطلق بلندی مراد لی جائے تو ’’فی‘‘ اپنے ظاہری معنی (ظرفیت) میں استعمال ہوگا۔ اور مراد ہوگا ’’بلندی میں‘‘۔ اور اگر وجودی آسمان مراد لیا جائے تو ’’فی السماء‘‘ کا معنی ’’علی السماء‘‘ کریں گے۔ اور ’’فی السماء‘‘ سے مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں میں داخل ہے۔ کیونکہ آسمان مخلوق ہیں اور اللہ عزوجل اپنی مخلوقات میں سے کسی چیز میں داخل نہیں ہوتا۔ اس کی ذات میں کوئی مخلوق شامل ہے اور نہ ہی اس کی ذات کا کوئی حصہ مخلوقات میں ہے۔ بلکہ وہ اپنی مخلوقات سے جدا ہے۔ اس میں جہمیہ اور معطلہ کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت بیان نہیں کی جائے گی کہ وہ بلندی میں ہے اور جہاں میں داخل یا جہاں سے خارج ہے۔ حالانکہ اس سے مراد عدم ہے۔ کیونکہ جو چیز نہ کائنات کے اندر ہو نہ اس سے باہر وہ معدوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بلند ہے اس سے جو وہ کہتے ہیں۔ ایسے ہی اس آیت مبارکہ میں ’’حلولیہ‘‘ کا بھی ردّ ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز میں داخل ہے۔
Flag Counter