Maktaba Wahhabi

152 - 440
﴿تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ مِنْہُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ﴾ (البقرہ:۲۵۳) ’’یہ رسول، ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی، ان میں سے کچھ وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا ۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں ’’مَنْ کَلَّمَ اللّٰہُ‘‘ سے مراد موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے بغیر واسطے کے کلام کیا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سنا، اس لیے انہیں تمام رسولوں میں سے ’’کلیم اللہ‘‘ کا خصوصی لقب عطا کیا گیا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں سے کلام فرمائیں گے۔ اہل جنت سے کلام فرمائیں گے، انہیں سلام کہیں گے اور ان کے سلام کا جواب دیں گے جسے وہ سنیں گے۔ اور اہل جنت اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے واضح طور پر اس طرح دیکھیں گے جیسے لوگ چودھویں کے چاند کو یا صاف آسمان پر روشن آفتاب کو دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کلام کرتا رہا ہے اور جب چاہتا ہے حقیقی طور پر لفظی اور معنوی کلام کرتا ہے۔ لیکن اس کی کیفیت تکلم سے ہم واقف نہیں۔ اسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کا کلام مخلوق کے کلام کی طرح نہیں۔ لہٰذا ہم یہ نہیں کہتے کہ اللہ بھی مخلوق کی طرح کلام کرتا ہے۔ بلکہ ہم کہتے ہیں: وہ جیسے چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ باقی تمام صفات کی طرح اس کی کیفیت کو بھی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ ***** وَمِنْ صِفَاتِ اللّٰہِ تَعالَی أَنَّہُ مُتَکَلِّمٌ بِکَلامٍ قَدِیْمٍ (۱) یَسْمَعُہُ مِنْہُ مَنْ شَائَ مِنْ خَلْقِہِ (۲) سَمِعَہُ مُوْسیٰ مِنْہُ مِنْ غَیْرِ وَاسِطَۃٍ (۳) وَسَمِعَہُ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ (۴) وَمَنْ أَذِنَ لَہُ مِنْ مَلَائِکَتِہٖ وَرُسُلِہٖ۔ ترجمہ…: اللہ تعالیٰ کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ازل سے کلام کرنے والا ہے اور وہ اپنا کلام اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے سناتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے براہ راست اللہ کا کلام
Flag Counter