Maktaba Wahhabi

239 - 440
وَرَوَی ابْنُ عُمَرَ [عَنْ اَبِیْہِ] رضی اللّٰه عنہما ، ’’أَنَّ جِبْرِیْلَ علیہ السلام قَالَ لِلنَّبِیِّ صلي للّٰه عليه وسلم مَا الْإِیْمَانُ؟ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَبِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ۔ فَقَالَ جِبْرِیْلُ: صَدَقْتَ‘‘ انفرد مسلم بإخراجہ۔[1] (۱) ترجمہ…: جناب عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سیّدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’یہ کہ تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے۔‘‘ تو جناب جبریل علیہ السلام نے فرمایا: ’’آپ نے سچ فرمایا۔‘‘ اس کو تنہا امام مسلم رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ تشریح…: (۱) مؤلف رحمہ اللہ قضاء و قدر کے دلائل قرآن سے بیان کرنے کے بعد اب حدیث سے اس کے دلائل ذکر کر رہے ہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے حدیث جبریل ذکر کی ہے۔ یہ حدیث حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ وہ اپنے باپ جناب عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ سیّدنا جبریل علیہ السلام ایسی شکل میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے کہ شدید سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ان کے بال انتہائی سیاہ تھے۔ ان پر سفر کے آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ حاضرین مجلس میں سے کوئی انہیں جانتا بھی نہیں تھا۔ یہ بڑا عجیب و غریب قسم کا آدمی دکھائی دیتا تھا۔ وہ نہ تو اس علاقے کا رہنے والا تھا کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے پہچانتے نہیں تھے اور نہ ہی وہ مسافر تھا کیونکہ اس پر سفر کے آثار بھی نہیں تھے۔ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تعجب کیا۔ وہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا۔ جبریل علیہ السلام اکثر طور پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انسانی شکل میں آتے تھے۔ چونکہ انسان فرشتوں کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لیے فرشتے انسانوں کے پاس اپنی اصلی شکل میں نہیں آتے بلکہ وہ انسانی شکل میں آتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں انسانی صورت اختیار کرنے کی صلاحیت بخشی ہوئی ہے۔
Flag Counter