Maktaba Wahhabi

241 - 440
وَقاَلَ النَّبِیُّ صلي للّٰه عليه وسلم ’’آمَنْتُ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ وَحُلْوِہِ وَمُرِّہِ۔‘‘ (۱) ترجمہ…: اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میں اچھی بری، میٹھی اور کڑوی تقدیر پر ایمان لاتا ہوں۔‘‘ تشریح…: (۱) اس حدیث کو مصنف رحمہ اللہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آمَنْتُ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ وَحُلْوِہِ وَمُرِّہِ۔‘‘ [1] اس حدیث کا درست مفہوم یہ ہے کہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا ایک ضروری امر ہے۔ تمام پسندیدہ، مرغوب، مفید اور ہر قسم کا شرعی یعنی نقصان دہ اور ناپسندیدہ کام اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر کے تابع ہیں۔ تمام نیکیاں خیر ہیں اور تمام برائیاں شر ہیں۔ ’’وَحُلْوِہِ وَمُرِّہِ‘‘ سے مراد ہے کہ تقدیر بعض اوقات میٹھی ہوتی ہے۔ یعنی طبیعت کے موافق لذیذ اور خوش کن ہوتی ہے اور کبھی کڑوی ہوتی ہے یعنی طبیعت کے موافق نہیں ہوتی۔ مثلاً مصائب و آلام، غم اور پریشانیاں وغیرہ۔ لیکن یہ بھی تقدیر میں شامل ہیں۔ لہٰذا ان پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ جو شخص تقدیر کے صرف انہی فیصلوں پر ایمان لاتا ہے جو موافق طبیعت ہوں تو وہ گویا محض اپنی شہوت اور خواہشات کا پیروکار ہے۔ ایسا شخص دراصل تقدیر پر ایمان نہیں لاتا بلکہ محض لذت دینے والی چیزوں پر ایمان لاتا ہے۔ جبکہ حقیقی مومن وہ ہے جو اچھی اور بری ہر قسم کی تقدیر پر ایمان لاتا ہے۔ قضاء اور تقدیر پر ایمان لانے والے کا امتیاز یہ ہوتا ہے کہ وہ مصائب پر صبر کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور تقدیر کے تحت ہی آتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ،﴾ (البقرہ:۱۵۵) ’’اور یقینا ہم تمھیں خوف، بھوک، مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی
Flag Counter