Maktaba Wahhabi

253 - 440
’’کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، زمین میں فساد کرنے والوں کی طرح کر دیں گے؟ یا کیا ہم پرہیز گاروں کو بدکاروں جیسا کردیں گے؟ ‘‘ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ﴿اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوْا السَّیَِّٔاتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَائً مَحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ ط سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ،﴾ (الجاثیہ:۲۱) ’’یا وہ لوگ جنھوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا، انھوں نے گمان کر لیا ہے کہ ہم انھیں ان لوگوں کی طرح کر دیں گے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے؟ ان کا جینا اور ان کا مرنا برابر ہو گا؟ برا ہے جو وہ فیصلہ کر رہے ہیں ۔‘‘ یہ اللہ کے بارے میں بدظنی ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم کرے گا۔ کہ نیکوکاروں کو سزا اور بدکاروں کو جزا دے گا۔ ***** وَہُوَ وَاقِعٌ بِقَضَائِ اللّٰہِ وَقَدْرِہِ۔ (۱) ترجمہ…: لیکن یہ سب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے تحت واقع ہوتا ہے۔ تشریح…: (۱) اچھائیاں اور برائیاں بندوں کی خود عمل کردہ ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر کے مطابق ہی ہوتی ہیں اور اس کی قضا ء و قدر میں داخل ہیں لیکن ہم اس کو قضاء و قدر کا نتیجہ کہہ کر اپنی غلطیوں، جرائم اور برائیوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ہمارے پاس ان کو کرنے اور نہ کرنے کا مکمل اختیار ہوتا ہے اور ہم اپنی مرضی سے ان کا انتخاب کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔ آپ اللہ کی قضاء و قدر کو دلیل نہ بنائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ قضاء و قدر کی وجہ سے کسی کو سزا
Flag Counter