Maktaba Wahhabi

264 - 440
لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا۔ کہا: ’’میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں۔‘‘ اور اسی حالت میں مرگیا۔ حالانکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب پہچانتا تھا۔[1] لہٰذا وہ اپنے اشعار میں کہتا ہے: وَلَقَدْ عَلمْتُ بِأَنَّ دِینَ مُحَمّدٍ مِنْ خَیْرِ أَدْیَانِ الْبَرِیّۃِ دِیْنًا لَوْلَا الْمُلَامَۃُ أَوْ حذَارُ مسبۃٍ لَوَجَدْتَنِیْ سَمْحًا بِذَاکَ مُبِیْنًا ’’یقینا میں جان چکا ہوں کہ بلاشبہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دین کائنات کے تمام ادیان سے بہتر ہے۔ اگر مجھے ملامت یا طعنوں کا ڈر نہ ہوتا تو تم مجھے کھلم کھلا اس کی حمایت کرتے ہوئے پاتے۔‘‘ اسے قبول اسلام سے صرف ملامت اور لوگوں کے طعنوں کے خوف نے روکے رکھا اور اس کی جاہلی حمیت نے اس کو کفر پر قائم رہنے پر مجبور کیا۔ حالانکہ وہ پہچانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حالت کفر میں مرا۔ اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے استغفار کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ،﴾ (التوبہ:۱۱۳) ’’اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لیے صاف ظاہر ہوگیا کہ یقینا وہ جہنمی ہیں۔‘‘
Flag Counter