Maktaba Wahhabi

266 - 440
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت، اخلاص قلب، اقامت نماز، ادائیگی زکوٰۃ سب کو دین کے حصے قرار دیا ہے۔ تشریح…: (۱) ایمان قول، اعتقاد اور عمل کا نام ہے، نیکیوں سے بڑھتا اور گناہوں سے کم ہوتا ہے۔ اس کی ایک دلیل درج ذیل فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ،﴾ (البینہ:۵) ’’انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں۔ اسی کے لیے دین کو خالص رکھیں، ابراہیم حنیف کے دین پر۔ اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں۔ یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔‘‘ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان قول، عمل اور اعتقاد کا نام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں چیزوں کو مضبوط دین کہا ہے اور دین اور ایمان ہم معنی ہیں۔ دِیْنُ الْقَیِّمَہ سے مراد مضبوط دین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت مبارکہ میں اپنی عبادت، اپنے لیے اخلاص، اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ کو دین کہا ہے۔ حالانکہ ان میں بعض چیزیں عقیدہ سے تعلق رکھتی ہیں، بعض اقرار سے اور بعض عمل سے۔ ***** وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي للّٰه عليه وسلم ’’اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَۃَ، أَعْلَاھَا شَہَادَۃُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَدْنَاھَا إِمَاطَۃُ الْأَذَی عَنِ الطَّرِیْقِ۔‘‘ (۱) فَجَعَلَ الْقَوْلَ وَالْعَمَلَ مِنَ الْإِیْمَانِ۔ ترجمہ…: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں جن میں سے بلند ترین لا الہ الا اللہ کی گواہی اور سب سے نچلی شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قول و عمل کو ایمان قرار دیا ہے۔
Flag Counter