لفظ جلالہ پر وقف متعین ہوجاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ﴿ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَہٗ﴾ میں تاویل اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی یہ تو صرف اس چیز کا انتظار کررہے ہیں جس کی طرف دنیا مستقبل میں لوٹے گی۔ ﴿یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُہٗ﴾ یعنی اس دن اس کی وہ حقیقت اور کیفیت واقع ہوجائے گی جس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ: ﴿یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْہُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَآئَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَہَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَآئَ فَیَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُط﴾ (الاعراف:۵۳) ’’تو وہ لوگ جنھوں نے اس سے پہلے اسے بھلا دیا تھا، کہیں گے: یقینا ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے، تو کیا ہمارے لیے کوئی سفارش کرنے والے ہیں کہ وہ ہمارے لیے سفارش کریں۔ یا ہمیں واپس بھیجا جائے تو ہم اس کے برخلاف عمل کریں جو ہم کیا کرتے تھے۔‘‘ جب وہ قیامت کے دن ان غیبی حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے جن کی اللہ تعالیٰ نے انھیں خبر دے رکھی ہے تو وہ جان لیں گے کہ انھوں نے غلطی اور کوتاہی کی اور بے کار زندگی گزار دی۔ پھر وہ دنیا میں واپس آنے اور کسی سفارشی کی تمنا کریں گے۔ اسی طرح یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یوسف نے اپنے والدین کو عرش پر بٹھالیا اور بھائی سجدے میں گرگئے تو فرمایا: ﴿وَ قَالَ یٰٓاَیَتِ ہٰذَا تَاْوِیْلُ رُئْ یَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَہَا رَبِّیْ حَقًّا،﴾ (یوسف:۱۰۰) اور اس نے کہا: اے میرے باپ! یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہے۔ بے شک میرے رب نے اسے سچا کر دیا۔‘‘ یعنی یہ میرے اس خواب کی (جو میں نے پہلے دیکھا تھا) حقیقت اور انجام ہے اور اب |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |