Maktaba Wahhabi

123 - 234
مسند أحمد میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخض اپنے کسی کام سے بدفالی کی بنا پر رکا اس نے شرک کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے دریافت کیا اس کا کفارہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:اس کا کفارہ یہ دعا ہے:(اَللّٰھُمَّ لَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُکَ وَ لَا طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ وَ لَآ إِلٰہَ غَیْرُکَ)(مسند احمد:2/ 220) ’’ یا اللہ!تیری بھلائی کے علاوہ کوئی بھلائی نہیں۔ اور تیرے شگون کے علاوہ کوئی شگون نہیں۔ اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔‘‘ اور مسند أحمد میں ہی حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّمَا الطَِّیَرَۃُ مَا اَمْضَاکَ اَوْ رَدَّکَ۔))(مسند احمد: 1/ 213) ’’بدشگونی وہ ہے جو تجھے کسی کام کے کرنے پر آمادہ کرے یا اس سے روک دے۔‘‘ اس باب کے مسائل 1۔ اس باب میں سورہ الاعراف کی آیت﴿اَلَآاِنَّمَا طٰئِرُھُمْ عِنْدَ اللّٰهِ﴾اور سورہ یس کی آیت:﴿قَالُوْا طَآئِرُکُمْ مَّعَکُمْ﴾ کی تفسیر اور ان کا مفہوم بیان ہوا ہے۔ 2۔ اس میں امراض کے متعدی ہونے کی نفی ہے۔ 3۔ اس میں بدفالی کی بھی نفی ہے۔ 4۔ اور اُلو کی آواز سے بدفالی لینے کی بھی نفی ہے۔ 5۔ اور ماہ صفر کی نحوست کے عقیدہ کی بھی نفی ہے۔ 6۔ اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ نیک فالی منع نہیں بلکہ مستحب ہے۔ 7۔ فال کے مفہوم کی بھی وضاحت ہوئی۔ 8۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر بادل نخواستہ بدفالی کے وسوسے اور خیالات دل میں پیدا ہوجائیں تو وہ مضر نہیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل اور اعتماد کی وجہ سے ختم ہو جاتے ہیں۔ 9۔ جس شخص کے دل میں بدفالی کے وسوسے پیدا ہوں ؛وہ کون سی دعائیں پڑھ لیا کرے؛[اس میں رہنمائی کی گئی ہے]۔ 10۔ اس بات کی بھی صراحت ہوگئی کہ بدفالی لینا شرک ہے۔ 11۔ نیز اس بحث سے مذموم بدفالی کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔
Flag Counter