Maktaba Wahhabi

213 - 234
باب: ما جاء فی منکری القدر باب: منکرین تقدیر کا بیان حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’ اس ذات کی قسم جس کے ساتھ میں عبد اللہ بن عمر کی جان ہے! اگر کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے، تو اس کا یہ عمل اللہ کے ہاں اس وقت تک قبول نہ ہوگا جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لائے، پھر انہوں نے اپنی اس بات پر بطور دلیل، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پیش کیا: ((الإِیمانُ،أَنْ تَؤمِنَ بِاللّٰہِ، وَملائِکتِہِ، وکُتبِہِ، ورسلِہِ، والیومِ الآخِرِ، وتؤمِن بِالقدرِ خیرِہِ وشرِہِ۔))[1] ’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، قیامت کے دن اور تقدیر کی بھلائی اور برائی پر ایمان لائے۔‘‘ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا: ’’ بیٹا! تو اس وقت تک لذت ایمان سے نہیں پا سکتا جب تک یہ یقین نہ کرلے کہ جو تکلیف تجھے پہنچی ہے وہ تجھ سے کبھی ٹل نہیں سکتی تھی ؛او ر جو نہیں پہنچی، وہ کبھی تم تک پہنچ نہیں سکتی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ((إن أول ما خلق اللّٰه القلم، فقال لہ: اکتب فقال: ربِ وماذا أکتب؟ قال: اکتب مقادِیر کلِ شیئٍ حتی تقوم الساعۃ۔)) ’’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اور اسے لکھنے کا حکم دیا۔ اس نے کہا: اے میرے رب! کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قیامت تک آنے والی ہر چیز کی تقدیر لکھ دے۔‘‘ بیٹا! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ((من مات علی غیرِ ہذا فلیس مِنِی۔))[2]
Flag Counter