Maktaba Wahhabi

140 - 234
یہ جان لینا چاہیے کہ بیشتر اوقات خوف اور خشیت عبادت ہوتے ہیں۔ اور کبھی یہ طبیعت اور عادت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ اسباب اور اس کے متعلقات کی بنا پر ہوتا ہے۔ اگر خوف و خشیت عبودیت اوربندگی جیسا ہو؛ کہ اس خوف کی وجہ سے اس کی قربت حاصل کی جائے جس کا خوف اورڈر محسوس ہو رہاہے؛اوروہ باطنی طور پر اسے اپنی اطاعت کی طرف بلا رہا ہو؛ یہ ایسا خفیہ خوف ہوجس کی وجہ سے انسان اس کی نافرمانی سے رک جائے جس کا خوف ہے؛ اگر یہ امور اللہ تعالیٰ سے متعلق ہیں ؛ تو پھر یہ سب سے بڑا واجب اور عین ایمان ہیں۔ اور اگر ان کا تعلق غیر اللہ سے ہے؛ تو پھر یہ وہی شرک اکبر ہے جس کی مغفرت نہ کرنے کی اللہ تعالیٰ نے وعید سنائی ہے۔ اس لیے کہ یہ انسان اللہ تعالیٰ کی اس عبادت میں شریک ٹھہراتا ہے جو دل کے اعمال میں سے سب سے بڑا واجب ہے۔ اوراس واجب میں وہ غیر کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاتا ہے۔ اور بسا اوقات یہ غیراللہ کا خوف اللہ تعالیٰ کے خوف سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ہاں اگر کوئی اسی قسم کا خوف اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہو تو وہ موحد اور مخلص ہے۔ اورجو کوئی غیر اللہ سے ڈرتا ہو تو یقیناً وہ اس ڈر میں غیر کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتا ہے۔ جیسے کوئی محبت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر کو شریک بناتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے جیسے: کوئی انسان کسی صاحب قبر سے ڈرتا ہو کہ کہیں اسے کوئی تکلیف نہ پہنچادے؛ یا پھر اس سے ناراض ہو کر کوئی نعمت یا اس طرح کی کوئی چیز چھین نہ لے۔ ایسا اکثر طور پر قبر پرست لوگوں کے ہاں دیکھنے میں آتاہے۔ اگر یہ طبعی خوف ہو؛ جیسے کوئی دشمن سے یا درندے سے ڈرتا ہو؛ یا سانپ وغیرہ سے؛ یا کسی چیز سے ظاہری طور پر نقصان پہنچنے کا ڈر ہو ؛ تو اس قسم کا خوف عبادت نہیں۔ایسا بہت سارے اہل ایمان میں پایا جاتا ہے؛ اور اس کا وجود ایمان کے منافی نہیں ہے۔ یہ اس وقت ہو گا جب خوف ایسی چیز سے ہو جس سے نقصان پہنچنا تجربہ اور علم کی روشنی میں ثابت ہو۔ اور اگریہ خوف محض ایسے وہم کی بنا پر ہو جس کا کوئی اصل سبب ہی موجود نہ ہو۔ یا پھر انتہائی کمزور اور بودا سا سبب ہو؛ تو پھر یہ ایسا مذموم خوف ہے کہ ایسے انسان کا شمار بزدل لوگوں میں ہوتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بزدلی سے پناہ مانگا کرتے تھے؛ کیونکہ یہ برے اخلاقی اوصاف میں سے ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کامل ایمان اور توکل ؛ اور شجاعت کی وجہ سے ایسے امور خود بخود ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ حتی کہ خاص اورقوی اہل ایمان کے ہاں ایسے خوف ان کی ایمانی قوت اورقلبی شجاعت ؛ کمال توکل کی وجہ سے ان کے حق میں اطمینان اور سکون میں بدل جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ پر توکل کا باب قائم کیا ہے۔
Flag Counter