Maktaba Wahhabi

153 - 234
آلود ہوں، اگر اسے(اسلامی فوج کے)پہرے پر بٹھایا جائے تو پہرہ دے، اگر اسے(اسلامی لشکرکے)پچھلے حصے پر مقرر کیا جائے تو وہاں ڈیوٹی دے، اگر وہ اجازت مانگے تو اسے اجازت نہ ملے، اور اگر وہ کسی کے حق میں سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ ہو۔‘‘ اس باب کے مسائل: 1۔ انسان کا، آخرت میں کام آنے والے نیک اعمال کے بدلے، دنیا کا خواہش مند ہونا مذموم ہے۔ 2۔ سورہ ہود کی آیات 16،15کی تفسیر بھی معلوم ہوئی جن میں طالب دنیا کی مذمت بیان ہوئی ہے۔ 3۔ مسلمان آدمی کو درہم و دینار کا پجاری کہا جاسکتا ہے۔ 4۔ اگر اس کی آرزو پوری ہو تو خوش ورنہ ناخوش ہوتا ہے۔ 5۔ اس حدیث میں الفاظ تعِس اور وانتکس قابل غور ہیں۔ 6۔ اور حدیث کے الفاظ وِإذا شِیک فلا انتقش بھی توجہ طلب ہیں۔ 7۔ اس حدیث میں مذکورہ صفات کے حامل، مجاہد کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔ ان دو ا بواب کی شرح: باب: ریاکاری ایک مذموم عمل ہے۔ باب:کسی نیک عمل سے دنیا کا طالب ہونا بھی شرک ہے جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص اس دین کی اساس اور توحید اور عبادت کی روح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے تمام اعمال کو صرف اللہ کے لیے ؛ اس سے فضل و ثواب کی امید پر بجا لائے۔ پس وہ ایمان کے چھ ارکان اور اسلام کے پانچ ارکان کو مکمل طور پر بجا لائے۔ اورایمانی حقائق جیسے احسان؛ کو پورا کرے؛ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرے اور بندے کے حقوق بھی۔ اور ان کو پوری طرح سے بجالاتے ہوئے ارادہ اورنیت صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا حصول اور آخرت کی کامیابی ہو۔ اس سے نہ ہی کسی قسم کی ریاکاری مطلوب ہو اور نہ ہی جاہ و مرتبہ اور نہ ہی دنیا؛اس طرح سے اس انسان کا دین اور ایمان مکمل ہو جائیں گے۔ اس کا سب سے بڑا منافی امر وہ لوگوں کے لیے ریاکاری کرنا؛ اور ان سے مدح اورتعظیم کا طلب گار ہونا ہے۔ یا پھریہ کہ دنیا کمانے کے لیے کوئی کام کیا جائے۔ ایسا کرنے سے توحید اور اخلاص پر قدح وارد ہوتی ہے۔ جان لیجیے کہ ریاکاری کے عمل میں کچھ تفصیل ہے: ۱۔ اگر کسی انسان کے کوئی کام کرنے کا اصل مقصد ہو لوگوں کو دکھلانا ہو ؛ اور یہ بری نیت آخرتک باقی رہے؛ تو اس سے عمل کا اجروثواب
Flag Counter